آئس لینڈ میں خواتین کی جانب سے تنخواہوں میں عدم مساوات کے سبب اب تک کا سب سے بڑا احتجاج اور ہڑتال جاری ہے، آئس لینڈ کی وزیراعظم کیٹرین جیکبس ڈوٹیر بھی اس ہڑتال کا حصہ ہیں۔
خاتون وزیراعظم کے مطابق وہ 2030 تک آئس لینڈ میں مکمل صنفی مساوات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ خواتین کی جانب سے یہ احتجاج کیا جارہا ہے جو ملک میں اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہے۔
48 سال بعد اس ہڑتال میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی جو ملک کی 3 لاکھ 76 ہزار آبادی کے ایک چوتھائی حصے سے بھی زیادہ ہیں۔
اس ہڑتال سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر خلل پڑا ہے، ملک بھر میں اسکول اور کنڈر گارڈن بند ہیں اور صرف ایک بینک کھولا گیا ہے۔
اس سے قبل 1975 میں خواتین کی پہلی ہڑتال ریکجاویک شہر کے مرکز میں واقع ایک پہاڑی ارنارہول پر منعقد ہوئی تھی۔
گزشتہ روز ریکجاویک کے مرکز میں اس احتجاج سے قبل اپنے دفتر کے باہر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیٹرین جیکبس ڈوٹیر نے کہا کہ دنیا صنفی مساوات پر اپنے قدم کھینچ رہی ہے۔ لیکن آئس لینڈ صنفی تنخواہوں کے فرق، صنفی بنیاد پر تشدد اور جنسی ہراسانی سے متعلق جیسے ’بڑے مسائل‘ سے نمٹنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔