Monday, December 23, 2024, 7:39 AM
**جیوری نے ٹرمپ کو تمام 34 جرائم میں قصور وار قرار دے دیا **سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ’ہش منی‘ کیس میں جیوری نے انہیں قصوروار قرار دیا ہے **فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ نے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دیا **جج متعصبانہ رویہ رکھتے تھے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **فرد جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 34 الزامات کا سامنا تھا
بریکنگ نیوز
Home » سائفر کیس میں کیا بے چینی تھی جو رات کے 9 بجے بھی ٹرائل ہورہا تھا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

سائفر کیس میں کیا بے چینی تھی جو رات کے 9 بجے بھی ٹرائل ہورہا تھا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی

by NWMNewsDesk
0 comment

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں کہا کہ کیا بے چینی تھی جو رات کے 9 بجے بھی ٹرائل ہورہا تھا؟ فیئر ٹرائل کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔

عمران خان کے وکیل نے 12 اکتوبر 2022 کی کمپلینٹ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنائی اور کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس وقت کے سیکرٹری داخلہ نے کمپلینٹ دائر کی،5 اکتوبر 2022 کو کس نے انکوائری شروع کی؟ اس حوالے سے کوئی دستاویز عدالتی ریکارڈ پر نہیں، اگر یہ دستاویز ریکارڈ پر نہ ہو تو کیس کی بنیاد ہی نہیں تو کیس ختم ہو جائے گا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی نے اپنے بیان میں کہا کہ 5 اکتوبر انکوائری ڈی جی ایف آئی اے کی ہدایت پر شروع کی، ڈی جی ایف آئی اے اس کیس میں گواہ بھی نہیں ہے۔

banner

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ نے ڈی جی ایف آئی اے کو انکوائری کا کہا تھا؟ آپ ہی کہہ رہے ہیں انکوائری کمپلینٹ دائرہونے سے پہلے شروع ہوئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کیس بھی نہیں نہ ہی مرڈر کیس کی طرح کہہ سکتے ہیں بلکہ یہ مکس ہائبرڈ کیس ہے، یہ اپنی نوعیت کا الگ کیس ہے اس میں نئی عدالتی نظیر بنے گی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حق جرح ختم ہو جائے آپ کی حق تلفی ہوتی ہے، ملزم عدالت کی نظر میں فیورٹ چائلد ہوتا ہے، شام کے ٹرائل کی کیا حیثیت ہوگی؟ اس حوالے سے بھی پوچھیں گے، کیا بے چینی تھی کہ رات کے 9 بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا، آرٹیکل ٹین اے کے مطابق فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ٹرائل کی کیا جلدی تھی ؟ اس پر وکیل نے کہا کہ شاید یہ کسی ڈیڈ لائن کو پہنچنا چاہ رہے تھے، میں اگر یہ کہوں کہ اسلام آباد کی تاریخ کا متنازع ترین ٹرائل تھا تو عجیب نہیں ہوگا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ یہ دونوں سرکاری وکیل عدالت نے تعینات کیے تھے؟ کیا ایڈووکیٹ جنرل نے نام بھیجے تھے؟ سلمان صفدر نے کہا کہ جی! ایڈوکیٹ جنرل نے یہ تعینات کیے تھے۔

عدالت نے کہا کہ پھر تو ہمیں ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس کرکے سننا پڑے گا، ان سرکاری وکلا کی اسٹینڈنگ کیا تھی؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کردیا، ایڈووکیٹ جنرل نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے لیے سرکاری وکیل تجویز کیے تھے۔

بعدازاں عدالت عالیہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

مزید پڑھیے

مضامین

بلاگز

 جملہ حقوق محفوظ ہیں   News World Media. © 2024