امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جیک اسمتھ کیس میں عدالت کی جانب سے بڑا ریلیف مل گیا ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے دعوے سے متعلق ایک مقدمے میں اعلیٰ ترین عدالت نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدور اپنے دفتر کی “بنیادی” ذمہ داریاں نبھانے کے لیے فوجداری استغاثہ سے مکمل استثنیٰ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں سال 2020 کے الیکشن کے نتائج الٹنے کی کوشش کے معاملے پر استغاثہ کی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
نو ارکان پر مشتمل امریکی سپریم کورٹ کے چھ قدامت پسند ججوں نے ٹرمپ کے استثنیٰ کے فیصلے کے حق میں رائے دی جسے چیف جسٹس جان رابرٹس نے تحریری طور پر جاری کیا۔
عدالت عالیہ کے لبرل ونگ کے تین ارکان نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
اس طرح ججوں کی اکثریت نے ٹرمپ کے خلاف ان کئی اقدامات کے لیے قانونی چارہ جوئی کو مسترد کر دیا جو انہوں نے انتخابات کے بعد کیے تھے۔ ان میں ٹرمپ کی جانب سے محکمۂ انصاف کے ایک اہلکار کو برخاست کرنے کی دھمکی دینا بھی شامل تھا۔
محکمۂ انصاف کے اہلکار سے کہا گیا تھا کہ وہ یہ جھوٹا دعویٰ کرے کہ محکمہ بائیڈن کے حق میں ووٹ دینے والی کچھ ریاستوں میں ممکنہ دھوکہ دہی کی تحقیقات کر رہا ہے۔
تاہم، عدالت نے اس امکان کو کھلا چھوڑ دیا کہ استغاثہ استثنیٰ کے مفروضے کی “تردید” کر سکتا ہے جیسا کہ دیگر سرکاری کارروائیوں کے سسلے میں ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس پر فیصلہ کرنے کے لیے اسے ماتحت عدالت میں بھیج دیا ہے۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے استثنیٰ کی شق پر مستقل فیصلے کیلئے کیس واپس لوئر کورٹ کو بھیجتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ لوئر کورٹ طے کرے کہ سابق صدر کے کون سے اقدامات سرکاری اور غیر سرکاری ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ سابق صدور کو اپنے بنیادی آئینی اختیارات کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہے تاہم سابق صدور نجی حیثیت میں کیے گئے اقدامات کے لیے استغاثہ سے استثنیٰ کے حقدار نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے ٹرمپ کا استثنیٰ کا مقدمہ نچلی عدالت میں واپس بھیج دیا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جمہوریت کے لیے بڑی فتح قرار دے دیا ہے۔
ٹرمپ کو حاصل ہونے والے استثنیٰ کے بعد کیپیٹل ہل پر حملے کے حوالے سے ٹرمپ کے خلاف قائم مقدمات کی کارروائی مزید تاخیر کا شکار ہوسکتی ہے۔