وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہمارے ظرف کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے اور اگر پالیسی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی ہے تو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہم بھی کر سکتے ہیں
علی امین گنڈا پور نے پشاور میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چھ مہینے سے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ کہہ رہا ہے کہ میرے اوپر ایک گھنٹے میں سات ضلع میں ایف آئی آر ہے اور میں وہاں موجود نہیں ہوں، میری ایف آئی آر دکھا دو، میری ایک ویڈیو دکھا دو، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
انھوں نے کہا کہ میں للکاروں تو میری بات پسند نہیں آتی، میں تمہارا نوکر ہوں، میں تمہارا ملازم یا مزارع ہوں، میں پاکستان کا شہری اور ایک آزاد انسان ہوں، آپ کو مجھے جواب دینا پڑے گا اور آپ مجھے جواب نہیں دیں گے تو میں بولوں گا اور پوچھوں گا، میں آواز اونچی کروں گا، میں نکلوں گا کیونکہ مجھے آئین کہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرسوں پتا چلا کہ میں نے ایک ڈی ایس پی کی کنپٹی پر پستول رکھا ہے، میں آپ کو لکھ کر دے رہا ہوں کہ میں نے تو کوئی نیلی وردی والا بندہ دیکھا ہی نہیں ہے، پورے راستے میں آتے اور جاتے ہوئے میں نے اسلام آباد پولیس کی کوئی نیلی وردی نہیں دیکھی، ڈی ایس پی تم سے جو یہ کہہ رہا ہے اور کروا رہا ہے میں اس کا نام بھی اگلواؤں گا اور تم سے پوچھوں گا کہ تم نے کس کے کہنے پر یہ کام کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جس جیل سپرنٹنڈنٹ نے میرے گرفتار شدہ کسی شخص کو چاہیے وہ میری پارٹی کا ہے یا نہیں، اگر قانون توڑ کر جیل سے نکال کر کسی کے حوالے سے کیا ہے تو سپرنٹنڈنٹ صاحب تمہیں اس کا نام بتانا ہو گا اور سپرنٹنڈنٹ صاحب تم نام لو گے، اگر سافٹ ویئر اپ ڈیٹ وہاں سے ہو سکتا ہے تو یہاں سے بھی ہو سکتا ہے، اگر پالیسی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی ہے تو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہم بھی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میں کہہ رہا ہوں کہ افغانستان کے پاس مجھے وفد بھیجنے دو، افغانستان ہمارے پڑوسی ہیں، ہم ایک زبان بولتے ہیں اور ہماری 1200 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے، مجھے ان سے بات کرنے دو کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ خون میرا بہہ رہا ہے لیکن ان کو پرواہ ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں خود افغانستان سے بات کروں گا، میں بطور وزیر صوبہ بات کروں گا، وفد بھیج کر ملاقات کروں گا، ان کے ساتھ بیٹھ بات کروں گا اور مسئلہ حل کروں گا، میں یہ جانیں بچاؤں گا کیونکہ یہ مجھ پر فرض ہے۔