پاکستان کے سب سے برے شہر کراچی میں پریس کلب کے باہر منعقد ہونے والے ’سندھ رواداری مارچ‘ کے شرکا پر تشدد میں ملوث 11 پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
اتوار کو ’سندھ رواری مارچ‘ کے عنوان سے انتہا پسندی کے خلاف سول سوسائٹی کے مارچ کے شرکا کو پولیس نے لاٹھی چارچ کر کے روکا اور بعض خواتین شرکا کو بازؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے دوران پولیس نے کئی صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔
سندھ حکومت کے ترجمان علی راشد نے بتایا کہ جن پولیس افسران نے صورتحال کو مس ہینڈل کیا ان کو معطل کیا گیا ہے۔
سینیئر پولیس آفیسر سید اسد رضا کا کہنا تھا کہ پانچ مرد اور پانچ خواتین پولیس افسران بشمول ایک انسپکٹر کو معطل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ان افسران کو خواتین مظاہرین کے ساتھ بدسلوکی کرنے اور پیشہ ورانہ رویہ نہ اپنانے پر معطل کیا گیا ہے۔‘
انسانی حقوق کے کارکنان اور حقوق نسواں کی ایک جماعت نے کراچی پریس کلب کے باہر ملک میں توہین مذہب کے بڑھتے کیسز کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا جس کے مقابلے میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اپنی ریلی نکالنے کا اعلان کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بغیر اجازت کے ریلی نکالنے کی کوشش پر ٹی ایل پی کے 57 کارکنان گرفتار کیے گئے جبکہ حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک کارکن پولیس کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوا۔
سید اسد رضا کے مطابق دونوں گروہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور اجازت کے بغیر مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔
ان کے مطابق دونوں گروہوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے تک اپنا احتجاج موخر کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو احتجاج کا حق ہے لیکن رواں مہینے کے شروع میں کراچی ایئرپورٹ کے باہر چینی باشندوں پر حملے کے بعد ملک میں سکیورٹی کے حوالے سے خدشات بڑھے ہیں۔