سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہلی کیس میں متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جلد مختصر فیصلہ سنانے کی کوشش کریں گے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت نے نا اہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک بھی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق نہیں بنی۔ پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے ریگولر بینچ میں مقرر ہوں گے۔ اس کیس میں انفرادی لوگوں کے مقدمات نہیں سنیں گے۔ انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتے سنیں گے۔ تب تک ہو سکتا ہے اس کیس میں آرڈر بھی آ چکا ہو۔
چیف جسٹس نے کیس کے دوران ریمارکس دیے کہ سابق فوجی آمر کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پر جنرل ایوب خان کے بعد سے تجاوز کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے۔ پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہو جاتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ صرف کاغذاتِ نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو کیا تاحیات نا اہلی ہو گی؟ ایک جنرل نے یہ شق آئین میں ڈال دی تو کیا ہم سب پابند ہو گئے؟
انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ سادہ قانون سازی سے آئین میں دی گئی شقوں کو نہیں بدلا جا سکتا۔ مگر سپریم کورٹ آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتی ہے۔
بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو تشریح کے لیے آئین میں دیے گئے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین نے نہیں کہا تھا نا اہلی تاحیات ہے۔ یہ ہم نے کہا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کی شق 62-ون ایف کے تحت نا اہل قرار دیے گئے کسی بھی شخص کے لیے سزا کی مدت کا کوئی تعین نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے اس شق کے تحت بھی کسی شخص کو سزا سنائی گئی تو اس سے تعبیر کیا گیا کہ وہ کسی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نا اہل ہے۔
شہباز شریف حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی سزا پانچ سال مقرر کی گئی۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں تبدیلی کے بعد پانچ سال سے زیادہ نا اہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔