سپریم کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دینے کے بارے میں کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو اس کیس کا مختصر فیصلہ جاری کیا تھا۔
تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ کو سپریم کورٹ کے ججوں کے منصب کے منافی قرار دیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے احکامات جاری کیے ہیں کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو نوٹی فائی کرے۔
پیر کو جاری ہونے والا تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جو جسٹس منصور علی شاہ نے تحریرکیا ہے۔
تفصیلی میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ ہے کہ آزاد امیدوار بھی تحریکِ انصاف کے امیدوار تھے۔ پی ٹی آئی کے مطابق منتخب ہونے والے افراد کو ووٹرز نے ان کو تحریکِ انصاف کا امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ دیے۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر بھی وضاحت کر دی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی۔ عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے انتخاب لڑنے کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا۔ آئین یا قانون سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس نے 2024 کے عام انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتی یا حاصل کیں۔
فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے 80 میں سے 39 ارکانِ اسمبلی کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا۔ الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ باقی 41 ارکانِ قومی اسمبلی کے 15روز کے اندر دستخط شدہ بیان لیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹی فائی کرے۔ عوام کا ووٹ جمہوری طرزِ حکمرانی کا اہم جز ہے۔ جمہوریت کا اختیار عوام کے پاس ہے۔
تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کے اختلافی نوٹ کو غیر موزوں قرار دیا گیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ساتھی جج دوسرے کی رائے پر کمنٹس بھی دے سکتے ہیں۔ رائے دینے کے لیے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرے ججوں کی رائے میں کیا غلط ہے جس طریقے سے دو ججوں نے اختلاف کیا وہ غیر شائستہ ہے جس طریقے سے جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے اپنے فیصلے میں جو لکھا وہ انہیں زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا۔