شام کے نئے حکمرانوں نے معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے خلاف آپریشن ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
وزارت دفاع کے ترجمان حسن عبدالغنی نے سرکاری خبر رساں ادارے ’سانا‘ کو ایک بیان میں بتایا کہ حکام نے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع لاذقیہ اور طرطوس صوبوں میں سلامتی کے خطرات اور ’اسد حکومت کی باقیات‘ کے خلاف بڑے پیمانے پر ’فوجی آپریشن‘ ختم کر دیا ہے۔
یہ اعلان شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے کیا، جنہوں نےکہا تھا کہ ملک کو اب دوبارہ کبھی خانہ جنگی میں نہیں دھکیلا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی غیر ملکی طاقت یا ملکی فریق کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ شام کو افراتفری یا خانہ جنگی کی طرف گھسیٹ لے۔
انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ شہریوں کے قتل میں ملوث اور اختیار سے تجاوز کرنے والے کسی بھی شخص کا بلاتفریق احتساب کیا جائے گا۔
حالیہ آپریشن کے دوران بدترین تشدد کے واقعات میں 1 ہزار 500 سے زائد شہریوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ملی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعرات سے اب تک کم از کم 973 عام شہریوں کے قتل عام کی اطلاع دی تھی، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق علوی اقلیت سے تھا جنہیں سیکیورٹی فورسز یا اتحادی گروپوں نے پھانسی دی ہے۔
علوی اقلیت کے ساحلی مرکز میں لڑائی کا تعلق معزول صدر سے ہے، اسد قبیلے کی دہائیوں کی آہنی حکمرانی کے بعد اقتدار کی منتقلی سے افراتفری کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔
شام میں علوی اکثریتی علاقے میں جمعرات کے روز جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب معزول صدر بشار الاسد کے وفادار مسلح افراد نے شام کی نئی سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا تھا۔