سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں پی ڈی ایم حکومت کے عدالتی بنچ پر اعتراضات مسترد کردیئے۔۔عدالت نے 32 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تین ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں،بنچ پر اعتراضات عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہیں ۔اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے جج کو ہراساں کرنے کیلئے دائر کی گئی،وفاقی حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے عدالت کی بے توقیری کی۔
آڈیو لیک کمیشن میں بھی ایسی ہی مفادات کا ٹکراؤ اور تعصب جیسی بے سروپا بنیادوں پر درخواست دائر کی، آڈیو لیکس کیس کیخلاف اعتراض کی درخواست دائر کرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بنچ سے الگ کرنا تھا۔عدالت نے فیصلے نہ ماننے پر تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی
عدالت نے حکومت کی جانب سے بنچ پر اعتراض کی درخواست پر سماعت کے بعد 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی خوشدامن، خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے، جسٹس مظاہر نقوی، عابد زبیری اور پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو لیکس پر حکومت نے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔
حکومت نے 9 مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں یہ انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا،سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے کمیشن کو چیلنج کیا تھا۔عدالتی بنچ نے اس کیس کی دو سماعتیں کیں اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔