Saturday, April 19, 2025, 1:07 PM
**جیوری نے ٹرمپ کو تمام 34 جرائم میں قصور وار قرار دے دیا **سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ’ہش منی‘ کیس میں جیوری نے انہیں قصوروار قرار دیا ہے **فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ نے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دیا **جج متعصبانہ رویہ رکھتے تھے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **فرد جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 34 الزامات کا سامنا تھا
بریکنگ نیوز
Home » صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس: عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی، چیف جسٹس

صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس: عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے صحافیوں پر حملوں سے متعلق ایف آئی اے اور پولیس کی رپورٹس مسترد کردیں

by NWMNewsDesk
0 comment

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں پر حملوں سے متعلق ایف آئی اے اور پولیس کی رپورٹس مسترد کردیں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز بجھوانے اور ہراساں کیے جانے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغواء اور ابصارعالم پر حملے کے مقدمات میں غیر تسلی بخش کارکردگی پر آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے، لیکن آپ ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے۔ جھوٹی رپورٹ جمع کرائی گئی، اغوا کار جن گاڑیوں پر آئے کیا ان کے نمبرز نظر آ رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹانی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ ان کو ہٹا دیا جانا چاہیئے، 4 سال ہو گئے اور آپ کو کتنا وقت چاہیئے؟ کیا آپ کو 4 صدیاں چاہیئیں؟

banner

اس موقع پر پریس ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسد طور جیل میں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ وہ کیوں جیل میں ہیں؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ اسد طور پر سرکاری افسران کا وقار مجروح کرنے کا الزام ہے۔

جسٹس عرفان سعادت خان نے پوچھا کہ کیا ایف آئی آر میں ان افسران کا ذکر ہے جن کا وقار مجروح ہوا؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ایف آئی آر میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسفتسار کیا کہ اسد طور پر جو دفعات لگائی گئیں وہ کیسے بنتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ایف آئی اے کے افسر سے سوال کیا کہ کیا آپ کے ادارے میں کوئی پڑھا لکھا ہے، کوئی نہیں تو پھر اردو میں ترجمہ کروا لیں، کیا ہم نے صحافیوں کے خلاف آپ کو کوئی شکایت کی تھی، ججوں کا نام لیکر آپ نے صحافیوں کو نوٹس بھیج دیئے، آپ ہمارا کندھا استعمال کر کے اپنا کام نکال رہے ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت میں اسد طور پر درج ایف آئی آر کا متن پڑھا۔ چیف جسٹس نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ ایف آئی آر میں جو دفعات لگائی گئی ہیں یہ کس طرح لگائی گئی ہیں، بتائیے کیا آپ ہم سے زیادہ قانون جانتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف آئی اے حکام سے کہا کہ ہمارے کندھے پر رکھ کر بندوق چلا رہے ہیں، کیا ہم نے، کسی جج نے یا پھر رجسٹرار نے شکایت کی ہے، عدالت میں موجود ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ نہیں آپ کی طرف سے کوئی شکایت نہیں آئی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ صحافی اسد طور پر ایف آئی آر میں درج پیکا کی دفعات 9، 10 اور 24 کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اش
عدالت نے ایف آئی اے اور پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے اور پولیس سے تفصیلی رپورٹس دوبارہ طلب کرلیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 25 مارچ تک ملتوی کر دی۔

مزید پڑھیے

مضامین

بلاگز

 جملہ حقوق محفوظ ہیں   News World Media. © 2024