پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ قبائلی ضلع کرم میں فریقین نے سات روز کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا کہ فریقین سات روزہ سیز فائر پر متفق ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی فریقین نے یرغمال افراد کی واپسی اور میتوں کو حوالے کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ حکومتی وفد نے دورے کے پہلے روز اہلِ تشیع کے اور دوسرے روز اہلِ سنت کے مشران سے ملاقاتیں کیں۔
ہفتے کو ضلع کرم میں امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے پاڑہ چنار آنے والے صوبائی حکام کے وفد کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی ہوئی تھی البتہ اس واقعے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔
تین روز سے پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلعے کرم میں جاری فرقہ ورانہ جھڑپوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک اور 156 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کے عہدے داران نے نام نے ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ 21، 22 اور 23 نومبر کو قافلے پر حملے اور بعد ازاں ہونے والی مسلح جھڑپوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
حالیہ جھڑپوں کا آغاز جمعرات کو پولیس کی حفاظت میں جانے والے شیعہ کمیونٹی کے ایک قافلے پر حملے کے بعد ہوا جس میں 43 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ادھر جمعرات کو ہونے والے حملے کے اگلے روز لوئر کرم میں بگن کے علاقے پر مسلح افراد نے حملہ کردیا تھا جس میں مقامی ذرائع کے مطابق 400 سے زائد مکان اور دکانیں نذر آتش کردی گئیں۔
لوئرکرم بگن پر مسلح لشکر کشی کے نتیجے میں 23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بگن پر حملے میں مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے معاملے پر پہنچنے والے قومی جرگے کو بھی مارٹر گولے سے حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں تین افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ہفتے کی شب تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں 300 سے زائد خاندان علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق کرم میں موبائل نیٹ ورک معطل ہے اور مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک کی آمد و رفت رکی ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ کرم میں ہونے والی فرقہ ورانہ جھڑپوں میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت 16 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس سے قبل جولائی اور ستمبر میں ہونے والی کشیدگی کے دوران درجنوں ہلاکتوں کے بعد قبائلی جرگے نے جنگ بندی کرائی تھی۔