پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک کالج میں طالبہ سے مبینہ ریپ کے واقعے کی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں
وزیراعلٰی مریم نواز نے بدھ کو ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا ہے کہ لاہور کے نجی کالج میں مبینہ ریپ کی تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں اور حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔
مریم نواز نے سوشل میڈیا پر اس واقعے سے متعلق فیک نیوز پھیلانے کا الزام تحریک انصاف پرعائد کیا ہے۔
بدھ کو پریس کانفرنس میں پنجاب کی وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’ہماری تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور ہم اس کی تہہ تک گئے ہیں۔ یہ واقعہ مکمل جھوٹ کی بنیاد پر گھڑا گیا۔ بطور ماں میرے لیے یہ بہت اہم تھا کہ مکمل غیرجانبدارانہ تحقیقات کراؤں اور اب ہم اس نتیجے پرپہنچ چکے ہیں کہ ایک سازش تھی۔‘
مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک طالبہ کو بھی ساتھ بٹھایا جن کی ویڈیو وائرل تھی جس میں وہ بظاہر اس مبینہ ریپ واقعے کی تفصیلات بتا رہی ہیں۔ طالبہ نے میڈیا کے سامنے بتایا کہ وہ ایسے کسی واقعے کو ذاتی طور پر نہیں جانتیں بلکہ انہوں نے اپنی ایک ٹیچر کے کہنے پر ویڈیو بیان دیا تھا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’ایک جعلی واقعے کو تیار کر کے سوشل میڈیا کو استعمال کر کے بچوں کو اشتعال دلوایا گیا اور یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔ جس میں صحافی اور یوٹیوبر بھی ملوث ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے وہ پورا نیٹ ورک پکڑ لیا ہے۔ بیرون ملک سے اور خیبرپختونخوا سے یہ منظّم مہم چلائی جا رہی ہے۔ ہم ان کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ جمعے کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک سکیورٹی گارڈ نے طالبہ کا ریپ کیا ہے۔ جس کے بعد پیر کو لاہور سمیت پنجاب بھر میں نجی کالجوں کے طلبہ نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔
احتجاج کا سلسلہ بدھ کے روز بھی جاری رہا اور لاہور میں پانچ مقامات پر جبکہ فیصل آباد، گجرات ، نارووال ، ساہیوال سمیت کئی دیگر شہروں میں یہ احتجاج
رپورٹ کیا گیا ہے۔
وزیراعلٰی پنجاب نے ایک اعلٰی اختیاراتی کمیٹی بھی تشکیل تھی جس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں ہے۔
اس کمیٹی کی سفارش پر ایف آئی اے کی ایک سات رکنی ٹیم اب ان افراد کی تلاش میں ہے جنہوں نے ابتدائی طور پر اس افواہ کو جنم دیا جسے اب حکومت فیک نیوز کہہ رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ستر سے زائد ایسے سوشل میڈیا اکاونٹس کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں سے ایسا مواد شئیر کیا گیا۔ تاہم ابھی تک کسی بھی قسم کی گرفتاری کی خبر نہیں آئی ہے۔۔