سبکدوش ہونے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں عارف علوی سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان اس وقت کے کور کمانڈر پشاور اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو فوج کا سربراہ بنانا چاہتے تھے اور کیا اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہوئے؟
اس کے جواب میں عارف علوی کا کہنا تھا کہ ’’حلفیہ یہ بات کہتا ہوں کہ آرمی چیف کے لیے عمران خان کسی کو ترجیح نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے ہمیشہ کہا کہ میرٹ ہی ہماری اولین ترجیح ہوگی۔‘‘
سائفر کے معاملے پر سابق صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی وہ سائفر دیکھا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم اور وزرا کے حلف میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کوئی بات عوامی مفاد کے تحت انہیں بتانا ضروری ہو تو وہ ایسا کر سکتے ہیں اور اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے کہ کیا بات لوگوں تک پہنچنی چاہیے۔
ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان کے کسی اقدام پر آرٹیکل چھ لگانے کی بات نہیں کی ہے۔ اگر پھر بھی کوئی اس کے تحت مقدمہ چلانا چاہے اس کے لیے وہ تیار ہیں۔ میں نے آئین کی پاس داری کی اور جو درست سمجھا وہ کیا اور جو درست مشورہ ملا اس پر عمل کیا۔
سابق صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انہوں نے عمران خان کو اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے اور صوبائی اسمبلیاں نہ توڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن بعد میں ان فیصلوں کو عوامی تائید حاصل ہوئی اور ثابت ہوا کہ میرا مشورہ غلط تھا۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے بحال ہوئے ہیں یا نہیں البتہ کشیدگی ختم ہونی چاہیے۔