جمعہ کے روز سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ دفتر خارجہ صرف سائفر پر وزیراعظم کو بریفنگ دے سکتا ہے، دفتر خارجہ نے سائفر کی کاپی وزیراعظم کے حوالے کیسے کی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ دفتر خارجہ ایسا کر ہی نہیں سکتا، ایف آئی آر میں حقائق درست بیان نہیں ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے ، اگر وہ باہر گیا تو یہ ان کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا، وکیل نے بتایا کہ شاہ محمود نے تقریر میں کہا وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے ، حلف کا پابند ہوں، اس بیان کے بعد بھی شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔
جسٹس سردار طارق نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن سن کر ریمارکس دیئے کہ وزیرخارجہ سیانا تھا، اس نے وزیراعظم کو آگے کر دیا، وزیرخارجہ نے وزیراعظم کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ الیکشن آنے والے ہیں ، سابق چیئرمین پی ٹی آئی ایک سیاسی لیڈر ہیں، یہ بتائیں کیا ان کے باہر آنے سے سوسائٹی کو کوئی خطرہ ہے؟ دفتر خارجہ سائفر کسی کو بھیج ہی نہیں سکتا، اگر ایسا ہوا ہے تو غلطی دفتر خارجہ سے ہوئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کررہی ہے، ، ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہوسکتا۔
قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ سائفر کا مطلب کیا ہے؟ جبکہ جسٹس اطہر نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے ، ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا اور جسٹس طارق نے ریمارکس دیئے کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہوگیا تو سائفر نہیں رہا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ہدایت کی کہ سائفر کے حوالے سے قانون دکھائیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا سیکرٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز عام نہیں کرنی؟، تفتیشی افسر نے سیکرٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے؟۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی جس پر جسٹس اطہر نے استفسار کیا کہ سیکرٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں نہیں آگاہ کیا؟ جب حکومت چلی جائے تو وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں، کیا سیکرٹری خارجہ نے تحریری طور پر کبھی وزیراعظم کو بتایا کہ ڈاکومنٹ پبلک نہیں ہوسکتا؟۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟ ، تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا ہے؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جو دستاویز آپ دکھا رہے ہیں اس کے مطابق تو غیر ملکی طاقت کا نقصان ہوا، کیا حکومت 1970ء اور 1977ء والے حالات چاہتی ہے؟عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیراعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ پاک امریکا تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا اسکی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وزراء اعظم کو وقت سے پہلے نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزراء اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا؟۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ بھارت میں ہماری جگ ہنسائی تو کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے کیا کریں گے؟، آپ جو روز کر رہے ہیں اس پر بھی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
سپریم کورٹ نے دونوں رہنماؤں کو دس دس لاکھ روپے کے مچلکےجمع کرانے کی ہدایت کی۔