26
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیوروسے متعلق کی گئی ترامیم بحال کر دی ہیں اور فیصلے میں کہا ہے کہ کیس کے فریق عمران خان ثابت نہیں کر سکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو بلاوجہ کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے۔
عدالت نے کہا اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ قانون سازی خلافِ آئین ہو تو بھی کالعدم نہ کی جائے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے حکومتی انٹرا کورٹ اپیل کی درخواست پر جمعے کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تین رکنی بینچ کا فیصلہ ثابت نہیں کر سکا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں۔
عدالت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرلی ہیں۔
بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کی اپیل قابلِ سماعت نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کا استحقاق نہیں تھا کہ انٹراکورٹ اپیل دائر کرے۔ اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے۔
انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرنے والے بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ دیگر ججز میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے چھ جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
بینچ میں شامل تمام ججز نے متفقہ طور پر نیب ترامیم کی بحالی کا فیصلہ دیا ہے۔ تاہم جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹ تحریر کیے ہیں۔
واضح رہے کہ جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت (پی ڈی ایم) اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں۔ لیکن اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔
تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کر دیا گیا تھا۔