Wednesday, September 18, 2024, 9:24 PM
**جیوری نے ٹرمپ کو تمام 34 جرائم میں قصور وار قرار دے دیا **سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ’ہش منی‘ کیس میں جیوری نے انہیں قصوروار قرار دیا ہے **فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ نے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دیا **جج متعصبانہ رویہ رکھتے تھے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **فرد جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 34 الزامات کا سامنا تھا
بریکنگ نیوز
Home » اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے ملٹری ٹرائل پر وفاق کا بیان مسترد کردیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے ملٹری ٹرائل پر وفاق کا بیان مسترد کردیا

عدالت کی وفاق کو ایک ہفتے میں واضح مؤقف دینے کی ہدایت

by NWMNewsDesk
0 comment

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے ممکنہ ملٹری ٹرائل پر جمع کرایا گیا بیان مسترد کر دیا ہے

عدالت نے وفاق کو ایک ہفتے میں واضح مؤقف دینے کی ہدایت کردی ہے۔

سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے ممکنہ ملٹری حراست و ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سیاست دانوں اور فوجی افسر کے بیانات کی خبریں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔ اگر بیانات کسی افسر کی طرف سے آئیں تو وہ سنجیدہ ہیں۔

banner

اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عمران خان کو فوج کی حراست میں دینے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزارتِ دفاع کے پاس آج تک ملٹری حراست و ٹرائل کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ وزارتِ دفاع کی طرف سے بیان دے رہا ہوں کہ ایسی کوئی چیز ابھی نہیں ہو رہی۔

انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی درخواست آتی ہے تو پھر بھی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری سے کہا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کی درخواست قبل از وقت ہے؟ آپ کی درخواست پر عدالت نے نوٹس جاری نہیں کیا بلکہ بیان طلب کیا تھا۔ اگر جواب آتا کہ ہاں ملٹری ٹرائل ہونے جا رہا ہے تو پھر بات آگے بڑھتی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرے پاس اس کیس میں آگے بڑھنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

وزارتِ دفاع کے نمائندے بریگیڈیئر فلک ناز بعد ازاں روسٹرم پر آئے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے فیلڈ جنرل کورٹ میں 50 سے زائد کیس کیے ہیں۔

اس پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کیسے سویلین افراد کو ملٹری کورٹس میں لے جاتے ہیں؟

وزارتِ دفاع کے نمائندے کا کہنا تھا کہ متعلقہ مجسٹریٹ کو ملٹری اتھارٹی آگاہ کرتی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کا طریقۂ کار کیا ہوتا ہے؟

بریگیڈیئر فلک ناز نے کہا کہ جب کوئی شخص آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا کورٹ مارشل ہوتا ہے۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ کسی شخص کا ملٹری ٹرائل ہو گا یہ طے کرنے کے لیے کیا طریقۂ کار ہوتا ہے؟

وزارتِ دفاع کے نمائندے نے کہا کہ آرمی ایکٹ ایک اسپیشل قانون ہے۔ سیکشن ٹو ون ڈی کے تحت سویلین کا بھی ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے۔

عدالتی بینچ کا کہنا تھا کہ اگر ملٹری ٹرائل سے پہلے عمران خان کو نوٹس دیا جاتا ہے تو پھر یہ کیس نمٹا دیتے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ بغیر نوٹس آسمانی بجلی کی طرح آنا ہے تو پھر ایسا نہیں ہو گا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب کے قانون کو سپریم کورٹ نے ڈریکونین قرار دیا تھا۔ لیکن اس میں بھی طریقۂ کار موجود ہے۔ طریقۂ کار یہ ہے کہ پہلے سول عدالت چارج فریم کرے گی۔ ٹرائل کورٹ اگر کہے کہ کیس ملٹری کورٹ کو بھیجنا ہے تو پھر نوٹس دے کر بھیجا جا سکتا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے ملٹری ٹرائل سے متعلق کوئی واضح جواب نہیں آ رہا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میں آپ کو وقت دیتا ہوں۔ اس سے متعلق ہدایات لے کر آ جائیں۔

عدالت نے حکومت کا واضح مؤقف طلب کر لیا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا یا نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے واضح بیان دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے وقت مانگا۔

جسٹس میں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ حکومت کا بیان واضح نہیں۔ آئندہ سماعت پر واضح مؤقف پیش کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کر دی۔

مزید پڑھیے

مضامین

بلاگز

کوئک لنکز

رازداری کی پالیسی
رائے
رابطہ کریں
اشتہارات

سائنس و ٹیکنالوجیگوگل سرچ میں صارفین کے تحفظ کے لیے 3 بہترین پرائیویسی فیچرز کا اضافہگوگل سرچ میں صارفین کے تحفظ کے لیے 3 بہترین پرائیویسی فیچرز کا اضافہ
دم توڑتے ستارے کی دنگ کر دینے والی تصاویر
واٹس ایپ کا نیا فیچر جو اس کی ایک بڑی خامی دور کر دے گا
کچھ عرصے سے گوگل اکاؤنٹ استعمال نہیں کیا؟ تو وہ اس تاریخ کو ڈیلیٹ ہو جائے گا

 جملہ حقوق محفوظ ہیں   News World Media. © 2024