غزہ میں ثالثوں کی جانب سے جنگ بندی کی ایک اور کوشش ناکام ہوگئی ہے۔مصر کے شہر قاہرہ میں جاری مذاکراتی عمل کسی بھی پیش رفت کے بغیر ختم کردیئے گئے۔
ذرائع کے مطابق حماس اپنے موقف پر قائم ہے کہ کسی بھی معاہدے کا حاصل جنگ کا مکمل خاتمہ ہوگا۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ جب تک حماس کا عسکری ونگ غیر مسلح نہیں کیا جاتا جنگ کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا۔ تاہم فلسطینی مزاحمت کار ہتھیار چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔
حماس سے سربراہ خلیل الحیہ نے قدرے لچک دکھاتے ہوئے بتایا ہے کہ جنگ بندی میں توسیع کے بدلے میں حماس اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی تعداد میں اضافہ کرے گی۔
نیتن یاہو کی سیکیورٹی کابینہ کے رکن نے فوجی ریڈیو کو پیر کے روز بتایا’ اسرائیل دس قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ جبکہ حماس صرف پانچ کو چھوڑنا چاہتا ہے۔’
تاہم حماس کی طرف سے کہا گیا قیدیوں کو رہا کیے جانے کی تعداد اہم مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قبضہ اپنے وعدے پورے کرتا ہے یا نہیں اور معاہدے پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔ نیز قبضہ کیا جنگ بندی معاہدے کی شقوں پر عمل کو روک کر پہلے کی طرح جنگ جاری رکھتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ اسرائیل معاہدے کی روح کے مطابق پوری طرح عمل کرے اور اس کی ضمانت دی جائے کہ وہ عمل کرے گا۔’
مصری ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حماس نے اس تجویز کا جواب دینے کے لیے زیادہ وقت مانگا ہے۔
حماس کے عسکری ونگ نے حالیہ جنگ بندی کے دوران 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ لیکن اسرائیل نے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت کو آگے بڑھانے کے بجائے 18 مارچ سے دوبارہ جنگ چھیڑ دی۔
نئے سرے سے چھڑی گئی جنگ میں اسرائیلی فوج نے اقوام متحدہ کے 15 کارکنوں سمیت 15ہزار فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ جبکہ اب تک جنگ کے دوران مجموعی طور پر اسرائیلی فوج نے تقریبا 51 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا ہے۔