امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر قبضہ کرنے کے عزائم کے جواب میں مصر کی جانب سے غزہ کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
مجوزہ مصری منصوبہ کل قاہرہ میں ہونے والے ہنگامی عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
منصوبے کے تحت فلسطین کی مزاحمتی تنظیم ’حماس‘ کو نظر انداز کر دیا جائے گا اور اس کی جگہ عرب، مسلم اور مغربی ریاستوں کے زیر کنٹرول عبوری باڈیز قائم کی جائیں گی۔
مصر ی منصوبے کے مطابق ایک ’گورننس اسسٹنس مشن‘ غزہ میں حماس کی جگہ غیر معینہ مدت کے لیے عبوری انتظام سنبھالے گا جو انسانی امداد کے علاوہ جنگ سے ہونے والی تباہی کی تعمیر نو پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گا۔
مصری منصوبے کے مسودے کے مطابق اگر غزہ حماس کے زیر انتظام رہا تو اس تباہ حال پٹی کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے کوئی بڑی بین الاقوامی فنڈنگ نہیں ہوگی۔
اس منصوبے میں میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے کسی مستقل امن معاہدے کے بعد یا اس کے بغیر اس تجویز پر عمل درآمد کیا جائے گا یا نہیں۔
دوسری جانب، ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کا مقصد غزہ کو فلسطینی باشندوں سے پاک کرنا تھا جس سے فلسطینیوں اور عرب ممالک میں غم و غصہ پیدا ہوا کیوں کہ یہ منصوبہ دو ریاستی حل پر مرکوز امریکہ کی دیرینہ مشرق وسطیٰ پالیسی کے برخلاف ہے۔
حماس نے اب تک دیگر ممالک کی جانب سے فلسطینیوں پر کسی بھی تجویز کو مسلط کرنے کے خیال کو مسترد کیا ہے۔
حماس کے سینئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے کہا کہ ہمارا گروپ مصر کی جانب سے ایسی کسی تجویز سے متعلق خبر نہیں رکھتا۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے مستقبل کا فیصلہ صرف فلسطینیوں کو کرنا ہوگا جب کہ حماس غزہ کی سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی افواج کی موجودگی یا منصوبوں یا غیر فلسطینی انتظامیہ کی کسی بھی شکل کو مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتی ہے۔
واضح رہے کہ عرب ممالک نے غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے اور فلسطینیوں کی جبری ہجرت سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔