بھارتی حکومت نے ملک میں شہریت کا متنازع قانون ’سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ‘ نافذ کردیا۔
بھارتی حکومت کا یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب چند ہفتوں بعد ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
بھارتی پارلیمنٹ نے مذہب کو شہریت کی بنیاد بنانے والے اس قانون کی منظوری دسمبر 2019 میں تھی جس کے بعد ملک میں اس قانون کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس قانون کے مطابق مرکزی حکومت 31 دسمبر 2014 سے قبل بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندوؤں، پارسیوں، سکھوں، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں اور مسیحیوں کو شہریت دے سکتی ہے۔
اس قانون کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی جانب سے ’مسلمان مخالف‘ قرار دیا گیا ہے کیونکہ مسلمانوں کو اس قانون کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے۔
مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہناہے کہ یہ قانون اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن (این آر سی) بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کا سبب بن سکتا ہے۔
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دے دی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے اوراب یہ باقاعدہ نافذ ہوگیا۔