پاکستان، چین، ایران اور روس پر مشتمل چار فریقی گروپ کے وزارتی اجلاس نے افغانستان سے پیدا ہونے والے سکیورٹی چیلنجز پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
اتوار کو جاری کردہ مشترکہ بیان کے مطابق چار فریقی اجلاس 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نیویارک میں منعقد ہوا۔
پاکستان کی جانب سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اجلاس میں شرکت کی جبکہ چین، روس اور ایران کی نمائندگی ان کے وزرائے خارجہ نے کی۔
اجلاس کے دوران وزرا نے کہا کہ افغانستان میں متحرک داعش، القاعدہ، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، جیش العدل، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر سرگرم دہشت گرد گروہ علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
اجلاس میں خطے میں ہونے تمام حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی بھی مذمت کی گئی جن میں 13 ستمبر 2024 کو کربلا کے زائرین پر داعش کے حملے اور 15 جولائی اور 26 مارچ 2024 کو پاکستان میں بنوں اور بشام میں ٹی ٹی پی کے حملے شامل ہیں۔
چاروں ممالک کے وزرا نے افغانستان اور خطے میں دہشت گردی اور سلامتی کی صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور مشترکہ، جامع تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کے اصولوں پر زور دیا جس میں علاقائی سلامتی کے مسائل کو مزید جامع انداز میں جانچنا اور افغانستان اور خطے میں سکیورٹی کے مختلف چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا شامل ہے۔
چار فریقی اجلاس میں دوطرفہ اور کثیرالجہتی سطحوں پر انسداد دہشت گردی تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
بیان میں کہا گیا: ’دہشت گردی کی علامات اور بنیادی وجوہات دونوں کو حل کرنے اور جلد از جلد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کرنے میں افغانستان کی مدد کی جانی چاہیے۔
انہوں نے افغان طالبان حکمرانوں پر زور دیا کہ ’وہ دہشت گردی سے لڑنے، تمام دہشت گرد گروہوں کو مساوی اور غیر امتیازی طور پر ختم کرنے اور ان کے خلاف افغان سرزمین کو پڑوسی ملکوں اور خطے کے دیگر ممالک کے خلاف استعمال کو روکنے کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں کو پورا کرنے کے لیے واضح اور قابلِ تصدیق اقدامات کریں۔‘