سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے مدت نہیں لکھی تو نااہلی تاحیات کیوں؟ دو سال کیوں نہیں کی گئی؟ کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے، توبہ کا راستہ خدا نے بند نہیں کیا تو عدالت کیسےکرسکتی ہے؟
درخواست گزار فیاض احمد غوری اور سجادالحسن کے وکیل خرم رضا نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟ کیا آرٹیکل187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقررکی گئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل خرم رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں، جس پر خرم رضا کا کہنا تھا عدالت مقدمے کی کارروائی 184/3 میں چلا رہی ہے یا 187 کے تحت؟ آرٹیکل 62 میں کورٹ آف لاء کی تعریف نہیں بتائی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟
وکیل عریز بھنڈاری کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عزیرصاحب آپ سے آئینی معاونت کی امید تھی جو آپ نے نہیں کی، کسی نے بھی آرٹیکل17 کا ذکرنہیں کیا، کسی نے یہ نہیں بتایا کہ محض جھوٹ بولنے پرتاحیات نااہلی کیوں؟ تاحیات نااہلی دینے کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے۔
عدالت نےکیس کی مزید سماعت جمعےکی صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔