وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپوزیشن جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
اتوار کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق یہ مذاکراتی کمیٹی اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی تجویز پر بنائی گئی ہے جس میں حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہیں۔
بیان کے مطابق مذاکراتی کمیٹی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور نوید قمر، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی ) کے علیم خان اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری سالک حسین شامل ہیں۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جیل میں موجود سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا الٹی میٹم دے رکھا ہے۔
ہفتے کو پی ٹی آئی کے آفیشنل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق عمران خان جیل میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ اگر اتوار تک ان کے مطالبات سے متعلق سنجیدگی نہیں دکھاتی تو سول نافرمانی کے پہلے مرحلے میں ترسیلاتِ زر کے بائیکاٹ کا آغاز کردیا جائے گا۔
عمران خان نے رواں ماہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے مطابق عمران خان حکومت سے دو مطالبات کر رہے ہیں۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ تمام انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
عمران خان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ نو مئی 2023 کو اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔
نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتار کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات پیش آئے تھے۔
پاکستان کی فوج اور حکومت کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی ان واقعات کی ذمے دار ہے جب کہ پی ٹی آئی ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور انہیں اپنے خلاف سازش قرار دیتی ہے۔
گزشتہ روز فوجی عدالتوں نے نومئی کو مختلف فوجی عمارتوں اور تنصیبات پر حملے کے الزام میں گرفتار 25 ملزمان کو دو سے 10 برس قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ پی ٹی آئی نے ان فیصلوں کو مسترد کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر نو مئی واقعات میں ملوث ہونے پر فردِ جرم بھی عائد ہو چکی ہے۔