پاک افغان سرحد پر کشیدگی میں شدید اضافہ ہوگیا ہے
یہ صورت حال شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی چوکی پر دہشت گرد حملے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔
افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی فضائیہ کی جانب سے دہشت گردوں کے ٹھکاںوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکیسان کی جانب س ے کارروائی کے بعد افغان صوبے پکتیا سے پاکستان کے ضلع کرم میں مارٹر گولے فائر کیے گئے ہیں جس کے بعد فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں آبادی کی نقل مکانی شروع ہو گئی ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان کی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے پکتیکا اور خوست صوبوں میں بمباری کی ہے جہاں اٹھ افراد مارے گئے۔
ادھر کابل حکومت کے ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی لیکن ایسے علاقے موجود ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’ہم افغانستان میں کسی غیر ملکی گروہ کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور کسی کو افغان سرزمین کے استعمال کی جازت نہیں دیتے۔‘
شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں ہفتہ کی صبح دہشت گرد حملے اور اس کے بعد لڑائی میں پاک فوج کے ایک کرنل اور ایک کیپٹن سمیت 7 اہلکار شہید ہوئے تھے۔
تاہم ترجمان طالبان نے کہا کہ، ’ہم کسی کو افغان سرزمین پر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن ایک بات ہمیں قبول کرنی چاہیے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد ہے جہاں پہاڑ اور جنگلات واقع ہیں اورایسے علاقے موجود ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔‘
اتوار کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغان سرزمین سے ہمارے خلاف دہشت گردی ہورہی ہے، ان دہشت گردوں کو پاکستان میں بھی پناہ گاہیں میسر ہیں،پاکستان کو افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا علم ہے۔ ہم پُرعزم ہیں کہ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اس کے لیے سب کو متحد ہونا ہو گا۔