بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کو جواز بناتے ہوئے پاکستان کے ساتھ انڈس واٹر معاہدے 1960 کو فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے
گذشتہ روز کے پہلگام حملے کے تناظر میں وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہونے والے سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل، واہگہ بارڈر بند اور سفارتی عملہ محدود کرنے سمیت متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
بدھ کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان قابل اعتماد اور اٹل انداز میں سرحد پار سے دہشت گردی کی حمایت ختم نہیں کرتا معاہدہ معطل رہے گا۔
انڈیا میں موجود پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کابینہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اب کسی پاکستانی شہری کو انڈیا کا ویزا نہیں دیا جائے گا۔

وکرم مسرینے کہ اکہ پاکستانیوں کو سارک ویزا معاہدے کے تحت انڈیا کا سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی اور جن کو ماضی میں اس معاہدے کے تحت ویزے جاری کیے جا چکے ہیں انہیں منسوخ کیا جاتا ہے۔
نیوز کانفرنس سے خطاب میں انڈین سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ دہلی میں واقع پاکستانی سفارت خانے میں موجود ڈیفینس، ملٹری، نیوی اور فضائیہ کے ایڈوائزرز کو ’ناپسندیدہ شخصیات‘ قرار دیا گیا ہے، ان کے پاس انڈیا چھوڑنے کے لیے ایک ہفتہ ہے اور انڈیا بھی اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن سے اپنے ڈیفینس، ملٹری، نیوی اور فضائیہ کے ایڈوائزرز کو واپس بلا رہا ہے۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ہائی کمیشنز میں ان عہدوں کو ختم تصویر کیا جاتا ہے جبکہ سروس ایڈوائزرز کے عملے کے پانچ ارکان کو بھی دونوں ہائی کمیشنز سے نکالا جائے گا۔
ہائی کمیشنز میں یکم مئی 2025 سے عملے کی تعداد 55 سے گھٹا کر 30 کی جا رہی ہے۔
انڈیا نے یہ اعلان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل 2025 کو مسلح افراد کی فائرنگ سے 26 افراد کی اموات کے بعد کیا ہے جس کا الزام واقعے کے بعد پہلی بار انڈیا نے سرکاری سطح پر پاکستان پر عائد کیا گیا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کیا ہے؟
انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے انتظام کے لیے 1960 میں تاریخی سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔
رواں سال فروری میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیر برائے آبی وسائل مصدق مسعود ملک نے انکشاف کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان گذشتہ دو سالوں سے سندھ طاس معاہدہ سے متعلق اہم ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا اور معلومات کا اشتراک رک گیا ہے اور اس بارے میں دونوں ملکوں کے درمیان دو سال سے کوئی اجلاس نہیں منعقد ہوا۔
پاکستان سندھ طاس منصوبے میں کسی بھی ترمیم کی مخالفت کرتا ہے اور اسے اپنی آبی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
1947 میں جب ہندوستان تقسیم ہوا تو پنجاب کے سارے دریا انڈیا سے ہو کر پاکستان آتے تھے۔
اس سے ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور بالآخر 1960 میں ایوب خان اور جواہر لعل نہرو کے درمیان عالمی بینک کے زیرِ اہتمام سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔
معاہدے کے تحت دریائے سندھ کے طاس کے دریاؤں کو انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔
تین مشرقی دریا (راوی، بیاس اور ستلج) انڈیا کو ملے جب کہ پاکستان کے حصے میں تین مغربی دریا (سندھ، جہلم اور چناب) آئے۔
حالیہ برسوں میں خاص طور پر قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت آنے کے بعد انڈیا کا استدلال ہے کہ یہ معاہدہ غیر مساوی ہے اور پاکستان کے حق میں ہے، کیوں کہ اس کے تحت پاکستان کو سندھ کے طاس کے آبی وسائل کے تقریباً 80 فیصد حصے تک کنٹرول مل گیا ہے اسی لیے وہ اس پر نظرِ ثانی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔