امریکہ کی 22 ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے صدر ٹرمپ کے امیگریشن اور پیدائش پر شہریت ملنے کے صدی پرانے قانون کو ختم کرنے کے اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو 700 الفاظ پر مبنی صدارتی حکمنامہ جاری کیا تھا جس میں ایجنسیوں کو امریکہ میں پیدا ہونے والے اُن بچوں کی امریکی شہریت تسلیم کرنے سے روک دیا ہے جن کی والد یا والدہ میں سے کوئی بھی امریکہ کا شہری یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہے۔
ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز اور امیگریشن حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا قانون پیدائش پر شہریت کا حق دیتا ہے اور اگرچہ صدر وسیع اختیارات رکھتا ہے لیکن بادشاہ نہیں ہے۔
نیو جرسی کے اٹارنی جنرل میٹ پلاٹکن کا کہنا ہے کہ صدر محض قلم کے ذریعے 14 ویں ترمیم کو ختم نہیں کر سکتا۔
ریاست کنیکٹیکٹ کے اٹارنی جنرل ویلم ٹانگ جو امریکہ میں پیدا ہونے کی وجہ سے شہریت رکھتے ہیں اور اس عہدے پر منتخب ہونے والے پہلے چینی نژاد امریکی ہیں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ان کے لیے ذاتی حیثیت کا حامل ہے۔
انہوں نے 14 ویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ کی پیدائش امریکی سرزمین پر ہوئی ہے تو آپ امریکی ہیں۔
اس سوال پر کسی قسم کی جائز قانونی بحث نہیں بنتی۔ اگرچہ ٹرمپ صریحاً غلط ہیں لیکن یہ حقیقت انہیں میری جیسی امریکی فیملیز کو سنگین نقصان پہنچانے سے نہیں روکے گی۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ عدالت میں سامنا کرنے کو تیار ہیں اور مقدمات بائیں بازو کی مزاحمت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس کے نائب پریس سیکریٹری ہیریسن فیلڈز نے کہا کہ بائیں بازو کے انقلابی یا تو عوام کی بھرپور خواہش کو مسترد کرتے ہوئے مخالفت میں جا سکتے ہیں اور یا پھر صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔
شہریت کے قانون کے مطابق سیاحت یا کسی اور ویزہ یہاں تک کہ غیرقانونی طور پر امریکہ میں موجود والدین کے ہاں اگر بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ بچہ امریکی شہری تصور کیا جاتا ہے۔