روسی صدر ویلادیمیرپیوٹن نے مزید 6 سالہ مدت کے لیے صدارت کا باقاعدہ حلف اٹھالیا۔
کریملن میں منعقدہ تقریب میں ویلادیمیر پیوٹن نے اگلے 6 سال کے لیے روس کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تقریب کا بائیکاٹ کردیا گیا۔
پیوٹن نے صدارت کی نئی مدت کی افتتاحی تقریر میں کہا کہ یوکرین میں دوسال سے زائد عرصے سے جنگ لڑنے والے فوجیوں کے سامنے سرجھکانا چاہتا ہوں اور مارچ میں ان کا انتخاب اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک متحد او درست سمت پر ہے۔
کریملن ہال میں غیرملکی مہمانوں اور سفارت کاروں سے گفتگو میں روسی صدر نے کہا کہ روس کے شہریوں نے ملک کی تقدیر سنوارنے کے لیے مہر ثبت کردی ہے اور ایسے وقت میں جب ہمیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے تو اس کی بڑی اہمیت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اس کو ہمارے مشترکہ تاریخی اہداف، اپنے حقوق، اقدار، آزادی اور روس کے قومی مفادات کا بہادری سے دفاع سمجھتا ہوں۔
پیوٹن نے حلف برداری کے بعد روسی سیاست دانوں سے کہا کہ وہ مغرب سے جوہری ہتھیاروں سمیت کسی بھی معاملے پر مذاکرات سے انکاری نہیں ہیں، اب فیصلہ ان کا ہے کہ آیا وہ روس کو برداشت کرنے کے خواہاں ہیں یا جارحیت کی پالیسی پر کاربند رہتے ہیں، ہمارے ملک پر برسوں سے بدترین دباؤ ہے، جس کو وہ جاری رکھنا چاہتے ہیں یا تعاون اور امن کی راہ پر چلتے ہیں۔
واضح رہے کہ ویلادیمیر پیوٹن 1999 سے وزیراعظم یا صدر کی حیثیت سے روس کے حکمران ہیں اور اب گر وہ 6 سالہ مدت مکمل کرتے ہیں تو سابق سوویت رہنما جوزف اسٹالن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 18 ویں صدی میں ایمپریس کیتھرین کا روس کے طویل عرصے تک حکمرانی کا ریکارڈ توڑ دیں گے اور ایک مرتبہ پھر منتخب ہونے کی کوشش کریں گے۔