پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے ضلع چاغی میں پانچ افراد کی بجلی کے کھمبوں سے لٹکی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔
مقتولین کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ افغان سکیورٹی فورسز کے سابق اہلکار تھے جنہیں ایک عسکریت پسند تنظیم نے اغوا کیا تھا۔
حکام کے مطابق جمعے کی علی الصبح چاغی کے ضلعی ہیڈ کوارٹر دالبندین میں پولیس تھانے سے تقریباً تین کلومیٹر دور گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج سے متصل علاقے سے مقامی لوگوں نے لاشیں ملنے کی اطلاع دیں۔
جائے وقوعہ پر موجود ایڈیشنل ایس ایچ او عبدالحکیم مینگل نے بتایا کہ پولیس موقعے پر پہنچی تو گولیوں سے چھلنی پانچ لاشیں تین مختلف کھمبوں سے لٹکی ہوئی ملیں۔ ان کے ہاتھ پیچھے باندھ کر گلے میں رسی ڈالی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر ضابطے کی کارروائی کے لیے دالبندین کے پرنس فہد بن سلطان ہسپتال پہنچا دی ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق لاشوں کے ساتھ کوئی شناختی دستاویز نہیں ملی۔ نادرا سے مقتولین کی انگلیوں کے نشانات کی تصدیق کی درخواست کی گئی ہے۔
ان کے بقول پولیس اور لیویز کے پاس کسی کی گمشدگی کی کوئی شکایت درج نہیں۔
چاغی کے ضلعی پولیس سربراہ ایس ایس پی حسین لہڑی کےمطابق پانچوں افراد کو کہیں اور قتل کیا گیا اور پھر لاشیں رات کو یہاں لاکر لٹکائی گئیں۔ اب تک لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے تاہم پانچوں افراد غیرمقامی اور افغان شہری معلوم ہوتے ہیں۔
ایس ایس پی حسین لہڑی نے بتایا کہ ’خدشہ ہے کہ لاشیں ان افراد کی ہے جو ہمسایہ ملک میں سرگرم عسکریت پسند مذہبی تنظیم جیش العدل کی قید میں تھے۔ تنظیم نے ان پر اپنے ساتھیوں کے قتل کا الزام لگاتے ہوئے کچھ عرصہ قبل ان کی اعترافی بیانات پر مبنی ویڈیو جاری کی تھی۔‘
بلوچی، فارسی اور پشتو زبان میں ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو میں چھ افراد کو دکھایا گیا تھا جن میں سے پانچ نے اپنا تعلق چاغی سے متصل افغانستان کے صوبہ ہلمند سے بتایا تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ’ وہ اشرف غنی کی سابق افغان حکومت کے دور میں افغان سکیورٹی فورسز کا حصہ رہ چکے ہیں۔‘