چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مدت ملازمت مکمل کرکے جمعے کو ریٹائر ہوگئے ۔
جسٹس عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس دور جہاں سیاسی اور عدالتی تنازعات سے بھرپور رہا۔ جس کی جھلک ان کے آخری روز بھی نظر آئی
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس میں کئی سینئر ججز شریک نہیں ہوئے۔
اسلام آباد میں منعقدہ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس شہزاد ملک اور جسٹس عائشہ ملک نے شرکت نہیں کی۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریٹارڈ ہونے والے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت سے انکار کیا اور اس بارے میں رجسٹرار کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ میرا خط ریفرنس کے ریکارڈ پر رکھا جائے۔ خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس کا کردار لوگوں کے حقوق کا تحفط ہوتا ہے اور ایک چیف جسٹس نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہوتا ہے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دباؤ کو نظر انداز کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ چیف جسٹس کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر نہیں اور چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی اور عدالتی رواداری و ہم آہنگی کے لیے لازمی احترام قائم کرنے میں ناکام رہے جس کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے۔
انہوں نے سابق چیف جسٹس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئینی حدود سے تجاوز کیا تھا اس لیے ان کے ریفرنس میں بھی شرکت سے انکار کیا تھا جس کی وجوہات بھی خط کے ذریعے بتائی تھیں۔