نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت ہوئی
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے، میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، ریٹائرمنٹ سے قبل شارٹ اور سویٹ فیصلہ دے دیں گے۔
،جسٹس منصور نے کہا فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے،اس پر خواجہ حارث نے کہا فوجی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پرسزائیں موجود ہیں، جسٹس منصور نے کہا کہ سزائیں تو سول افسران اورعوامی عہدیداروں کیخلاف بھی موجود ہیں، کیا کرپٹ آرمی افسرکا عوام سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا؟ آرمی افسرفوج کے علاوہ کسی ادارے کا سربراہ ہوتونیب قانون کی زد میں آتا ہے۔
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کوکہہ سکتی ہےکہ آپ نے چالاکی اوربدنیتی پرمبنی قانون بنایا؟ سپریم کورٹ کے پاس اگرپارلیمنٹ کی قانون سازی چھیڑنے کا اختیار نہیں تواس کے ساتھ چلنا ہوگا، اس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ پارلیمنٹ کو سب کچھ کرنے کی اجازت نہیں ہے، پارلیمنٹ ماضی سے اطلاق کا قانون بناکرجرم ختم نہیں کرسکتی، ایسے تو 1985 میں سزا پانے والا مجرم آکرکہے گا میری سزا نہیں رہی اور دوبارہ ٹرائل کرو۔
درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث اور وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرلیے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کا فیصلہ جلد سنائیں گے اور فیصلہ سنانے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کریں گے