کراچی کے فرنچ ثقافتی مرکز میں ویک اینڈ پر حُسن، رنگ، روشنی اور فیشن کی دلکشی نے محفل کی چمک دو آتشہ کردی۔
ریمپ پر لفظ خُاموش رہے ! مگر رنگ مہکتے تو ماڈلز کی نخریلی واک اور دلربا اداؤں نے سب کہ ڈالا
روشنیوں کی برسات میں، موسیقی کی مدھر دھنوں پر ماڈلز کی سبک خرامی نے ایسا سماں باندھا کہ ہر نظر ٹھہر گئی، ہر دل مسحور ہوگیا۔
انڈس یونیورسٹی کی طالبات اپنے ہی تخلیق کردہ ملبوسات زیب تن کیے ریمپ پر جلوے بکھیرنے آئیں تو لگا جیسے کہکشاں سے اتری پریاں ہیں۔
دلکش رنگوں، نفیس کڑھائی اور منفرد ڈیزائنز نے حاضرین کو مسحور کردیا، یوں لگا جیسے خزاں میں بہار آگئی ہو۔
شام کی سب سے دلگیر گھڑی وہ تھی جب کینسر سے لڑتی، مگر حوصلے کی چمکتی تصویر، اداکارہ و ہدایت کار انجلین ملک نے ریمپ پر قدم رکھا۔ تالیاں بجیں، آنکھیں نم ہوئیں، مگر مسکراہٹیں بھی بکھر گئیں—یہ جیت کا اعلان تھا، ہمت کی جیت، روشنی کی جیت
اور جب کتھک ماسٹر اسفندیار خٹک نے اپنے تھرکتے قدموں، گھنگھرو کی مدھم چھنکار اور بازؤں کی خوبصورت جنبش سے محفل کو رقص کی جادوگری دکھائی، تو یوں لگا جیسے ریت پر پہلی بوند پڑی ہو، جیسے چاندنی میں ساز بج اٹھے۔
ماڈلز کی لہراتی زلفیں، اعتماد بھری چال اور موسیقی کی دھن پر تھرکتے قدم—یہ سب دیکھ کر ڈیزائنرز کے چہروں پر خوشی کے رنگ بکھر گئے۔ ہر ماڈل کی انفرادیت اور ہر لباس کی جدت نے شائقین کو داد دینے پر مجبور کردیا۔
یہ وہ رات تھی جہاں لباس سر چڑھ کر بولے، چمکے بھی، اور ہر دل پر اپنے رنگ ثبت کر گئے۔