امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی ایڈم بوہلر نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی مفادات کے تحت کام کر رہی ہے، نہ کہ اسرائیلی پالیسی کے تحت۔
اسرائیلی حکام کی جانب سے امریکہ اور حماس کے درمیان مذاکرات پر تنقید کے بعد ایڈم بوہلر نے کہا کہ ’ہم امریکہ ہیں، ہم اسرائیل کے ایجنٹ نہیں ہیں‘ ۔
ایڈم بوہلر کے مطابق مذاکرات کا مقصد بنیادی طور پر غزہ میں قید امریکی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا تھا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ چند ہفتوں میں اس حوالے سے کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے۔
ایک اسرائیلی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں ایڈم بوہلر نے انکشاف کیا کہ حماس نے 5 سے 10 سال کے لیے جنگ بندی کی پیشکش کی ہے جس کے دوران وہ اپنے ہتھیار ڈال کر غزہ کی سیاسی قیادت سے الگ ہو جائے گی۔
ایڈم بوہلر نے کہا کہ حماس نے تمام قیدیوں کے تبادلے اور 5 سے 10 سال کی جنگ بندی کی تجویز دی تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس نے اس پر باضابطہ طور پر اتفاق نہیں کیا ہے۔
ایڈم بوہلر کے حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بعد اسرائیلی حکام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، واضح رہے کہ اسرائیلی اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر نے ان مذاکرات کے حوالے سے بوہلر پر سخت تنقید کی تھی۔