یورپی یونین نے ان 7 ممالک کی فہرست جاری کی ہے، جنہیں وہ ’محفوظ‘ سمجھتا ہے، تاکہ تارکین وطن کی واپسی میں تیزی لائی جا سکے، اور ان ممالک کے شہریوں کے لیے بلاک میں پناہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے۔
اس فہرست میں کوسوو، بنگلہ دیش، کولمبیا، مصر، بھارت، مراکش اور تیونس شامل ہیں، تاہم یورپی یونین کے لیے ضروری ہے کہ اس اقدام کے نفاذ سے قبل بلاک کی پارلیمنٹ اور ارکان کی منظوری لی جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننے والے اس اقدام سے یورپی یونین کی حکومتوں کو ان ممالک کے شہریوں کی جانب سے دائر کی جانے والی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر تیزی سے کارروائی کرنے کا موقع ملے گا۔
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت میگنس برنر کا کہنا ہے کہ ’بہت سے رکن ممالک کو پناہ کی درخواستوں کے ایک بڑے بیک لاگ کا سامنا ہے، لہذا ہم سیاسی پناہ کے فیصلوں میں تیزی لانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، یہ بہت ضروری ہے۔
برسلز پر غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے اور ملک بدری کو آسان بنانے کے لیے دباؤ ہے، کیوں کہ ہجرت کے بارے میں رائے عامہ میں تلخی کے بعد کئی ممالک میں سخت دائیں بازو کے انتخابی فوائد کو ہوا ملی ہے۔
یورپی کمیشن نے کہا کہ یورپی یونین کے امیدوار ممالک بھی اصولی طور پر محفوظ ممالک کے طور پر نامزد ہونے کے معیار پر پورا اتریں گے۔
لیکن اس میں استثنات بھی رکھے گئے ہیں، بشمول جب وہ کسی تنازع کی زد میں آتے ہیں، مثال کے طور پر یوکرین کو فہرست سے خارج کر دیا جائے گا۔
یورپی یونین نے پہلے ہی 2015 میں اسی طرح کی فہرست پیش کی تھی، لیکن رکنیت کے لیے ایک اور امیدوار ترکی کو شامل کرنے یا نا کرنے کے بارے میں گرما گرم بحث کی وجہ سے اس منصوبے کو ترک کردیا گیا تھا۔
کمیشن نے کہا کہ بدھ کو شائع ہونے والی فہرست کو وقت کے ساتھ توسیع یا اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، اور یہ ان ممالک کو دیکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے، جہاں سے اس وقت درخواست دہندگان کی ایک بڑی تعداد آتی ہے۔
کئی رکن ممالک پہلے ہی ان ممالک کو نامزد کر چکے ہیں، جنہیں وہ پناہ کے حوالے سے ’محفوظ‘ سمجھتے ہیں، مثال کے طور پر فرانس کی فہرست میں منگولیا، سربیا اور کیپ ورڈے شامل ہیں۔
یورپی یونین کی کوششوں کا مقصد قوانین کو ہم آہنگ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تمام ارکان کے پاس ایک ہی بیس لائن ہے۔
ریاستیں انفرادی طور پر ممالک کو یورپی یونین کی فہرست میں شامل کر سکتی ہیں، لیکن اس میں سے کٹوتی نہیں کر سکتیں۔
کمیشن نے کہا کہ سیاسی پناہ کے مقدمات کا انفرادی طور پر جائزہ لینا ہوگا، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ موجودہ حفاظتی اقدامات برقرار رہیں، اور پناہ کے متلاشی افراد کو یکسر مسترد نہ کیا جائے۔
اس منصوبے کو نافذ العمل ہونے سے پہلے یورپی پارلیمنٹ اور رکن ممالک کی جانب سے منظور کیا جانا ضروری ہے۔
لیکن اسے پہلے ہی سول سوسائٹی کے گروپوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے, اور کچھ گروپوں نے تیونس اور مصر جیسے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ والے ممالک کو اس میں شامل کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی میرون امیہا کنکمین کا کہنا تھا کہ ’جو کوئی بھی یورپی یونین میں تحفظ کے لیے درخواست دیتا ہے، اسے اپنے انفرادی دعوے کا مکمل طور پر اور اپنی قابلیت کے مطابق جائزہ لینا چاہیے، قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں سے بھاگ رہے ہیں۔‘
انہوں نے اس تجویز کو ’پناہ گزینوں کے حقوق کو کھوکھلا کرنے اور روکنے کی طرف وسیع تر رجحان کا حصہ‘ قرار دیا۔
یورپی کمیشن نے نوٹ کیا کہ تیونس نے سیاسی شخصیات، وکلا، ججوں اور صحافیوں کو حراست میں لیا ، جب کہ مصر میں انسانی حقوق اور حزب اختلاف کے کارکنوں کو من مانی گرفتاریوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن مجموعی طور پر آبادی کو ’ظلم و ستم یا سنگین نقصان کے حقیقی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘۔
تیونسی فورم فار اکنامک اینڈ سوشل رائٹس نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے یورپی یونین کے منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق، سیاسی پناہ کے حق کی انفرادی حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق 2023 میں تقریباً 10 سال کی بلند ترین سطح کے بعد گزشتہ سال یورپی یونین میں غیر قانونی سرحدی گزرگاہوں کی نشاندہی 38 فیصد کم ہو کر 2 لاکھ 39 ہزار رہ گئی۔
تاہم اٹلی، ڈنمارک اور نیدرلینڈز کی قیادت میں یورپی یونین کے رہنماؤں نے اکتوبر میں مطالبہ کیا تھا کہ مہاجرین کی واپسی میں اضافے اور رفتار بڑھانے کے لیے فوری طور پر نئی قانون سازی کی جائے، اور کمیشن کو غیر قانونی تارکین وطن سے نمٹنے کے لیے ’جدید‘ طریقوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت یورپی یونین چھوڑنے کا حکم دینے والے 20 فیصد سے بھی کم افراد اپنے آبائی ملک واپس جا رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ کمیشن نے 27 ممالک پر مشتمل بلاک کے واپسی کے نظام میں ایک منصوبہ بند اصلاحات کا اعلان کیا تھا، جس سے رکن ممالک کے لیے یورپی یونین سے باہر تارکین وطن کی واپسی کے مراکز قائم کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
اٹلی کے وزیر داخلہ میٹیو پیانتوسی نے بدھ کو یورپی یونین کے حالیہ اقدام کو اطالوی حکومت کی کامیابی قرار دیا۔