اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام لاپتہ بلوچ طلبہ کو 10 جنوری تک بازیاب کرانے کا حکم دے دیا
یس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف ایف آئی آر کا حکم دوں گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچ طلبہ گمشدگی کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ 22 بلوچ طلبہ کو بازیاب کرا لیا گیا ہے، وہ گھر پہنچ چکے ہیں، 28 بلوچ اب بھی لاپتہ ہیں، تمام لاپتہ افراد کوبازیاب کرانے کی کوششیں کریں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سادہ سی بات ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے، رپورٹ بادی النظرمیں ظاہرکرتی ہے کہ ملک میں کوئی لاء اینڈ آرڈرنہیں جس کا جو جی میں آئے وہ کیے جارہا ہے، کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ کام ہوتے ہیں؟ جوبھی لاپتہ شخص بازیاب ہوتا ہے وہ آکرکہتا ہے میں کیس کی پیروی نہیں کرناچاہتا۔
عدالت نے تمام لاپتہ افراد کی فیملیزکی تفصیلات حکومتی کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کی اور وزیرداخلہ کو کہاکہ دو ہفتے میں ان بلوچ فیملیز کو ملیں اور جو بلوچستان میں ہیں وہاں جاکرملیں۔
عدالت نے کہا کہ تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں طے ہو گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے، اہل خانہ ریاست اور ریاست کے اداروں کے اعلیٰ افسران کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں، سیکرٹری دفاع اور متعلقہ اداروں کو بھی ملزم نامزد کر سکتے ہیں۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے وارننگ دی کہ اگر اگلی تاریخ پر لاپتہ طلبہ بازیاب نہ ہوئے تو وزیر اعظم، وزیر داخلہ، سیکرٹری دفاع و داخلہ کے خلاف پرچہ کاٹنے کا حکم دوں گا اور آپ سب کو گھر جانا ہو گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی مزید سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی۔