برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ گوانتاناموبے کا قیدی خود پر ہونے والے بہیمانہ تشدد پر برطانوی حکومت کے خلاف اپنے مقدمے میں انگریزی قانون کا استعمال کر سکتا ہے۔
ابو زبیدہ نے گوانتاناموبے سے رہائی کے بعد عدالت سے رجوع کیا ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافی کا ذمہ دار برطانوی حکومت کو بھی ٹھہرایا ہے۔
عدالت میں دائر اپنے دعوے میں ابوزبیدہ نے مطالبہ کیا کہ تھائی لینڈ، پولینڈ، مراکش، لتھوانیا، افغانستان اور گوانتاناموبے میں سی آئی اے کی “بلیک سائٹس” میں مجھے زخم زخم کرنے، جھوٹے الزام میں بغیر مقدمے کے قید بھگتنےاور میرے معاملے میں غفلت برتنے پر برطانوی حکومت ہرجانہ ادا کرے۔
ابو زبیدہ نے اپنے دعوے میں یہ تو نہیں کہا کہ اسے برطانوی فوج نے گرفتار کیا یا سہولت فراہم کی لیکن ان کا یہ مؤقف بہت مضبوط تھا کہ برطانیہ کی ملکی اور بیرون ملک انٹیلی جنس ایجنسیوں MI5 اور MI6 کو معلوم تھا کہ کہ سی آئی اے مجھے بلاجواز اور غیر قانونی طور پر تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے جس میں قتل یا معذور ہوسکتا ہوں۔
برطانیہ کی حکومت نے اس دعوے کے جواب میں قومی سلامتی کا جواز بناتے ہوئے کہا تھا کہ نہ تو اس بات کی تردید اور نہ اعتراف کرسکتے ہیں کہ ابو زبیدہ کو کہاں کہاں رکھا گیا تھا اور کیا سلوک کیا گیا۔
برطانوی حکومت کا کہنا تھا کہ جن چھ ممالک میں بقول ابو زبیدہ ان کو رکھا گیا تھا وہاں کے قوانین کا اطلاق کے مطابق اس کیس کو دیکھنا چاہیے تاہم آج عدالت نے حکومتی موقف کو رد کرتے ہوئے ابوزبیدہ کو برطانوی قوانین کے اطلاق کا جواز فراہم کردیا۔
زین العابدین محمد حسین عرف ابو زبیدہ کو 2002 میں پاکستان سے حراست میں لیا گیا تھا اور 2006 تک کیوبا میں بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتانامو میں بغیر کسی مقدمے کے رکھا گیا تھا۔
ان چار برسوں میں دوران تفتیش ابو زبیدہ کو 83 مرتبہ واٹر بورڈنگ کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حراست کے دنوں میں ہی تشدد سے ابو زبیدہ کی ایک آنکھ بھی ضائع ہوگئی تھی۔