پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے عدالتی رپوٹرز کے سیمنار سے خطاب کہا ہے کہ اگر کوئی خودمختار جج سوشل میڈیا کا اثر لیتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اظہار رائے بہت بڑی چیز ہے اور اس کو کبھی بھی دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا اگر آزادی اظہار رائے ہوتی اور اِس کی قدر بھی ہوتی تو 1971 میں پاکستان کو ٹوٹتے ہوئے نہ دیکھتے، اس وقت مغربی پاکستان کے تمام اخبار لوگوں کو ایک مختلف تصویر دکھا رہے تھے اور ایسا مسلسل ہوتا رہتا ہے، اگر 75 سال ہم نے اظہار رائے کی قدر کی ہوتی تو پاکستان دو لخت ہوتا اور نہ ہمارے لیڈر سولی پر چڑھتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججوں کو خودمختار ہونا چاہیے، توہین عدالت کے اصول جج کو تحفظ دینے کے لیے وضع نہیں کیے گئے۔ جج کو کسی تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے، سوشل میڈیا کا عدلیہ کی خودمختاری پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔