فلسطینی گروپ حماس نے کہا ہے کہ اسے غزہ میں فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک نئی تجویز موصول ہوئی ہے اور وہ اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔
یہ تجویز اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے بعد ثالثوں کی جانب سے پیش کی گئی ہے۔
حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ اس تجویز میں تین مرحلوں پر مشتمل فائر بندی شامل ہے۔
سب سے پہلے سات اکتوبر 2023 کو قیدی بنائے گئے افراد میں شامل عام اسرائیلی شہریوں کو چھوڑا جائے گا، پھر فوجیوں اور آخر میں ان قیدیوں کی لاشیں دی جائیں گی جو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران مارے گئے ہیں۔
لیکن نومبر کے آخر میں فائر بندی ختم ہونے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ فریقین کی جانب سے زیر غور ایک نئی تجویز کی تفصیلات جاری کی گئیں۔
فائر بندی کی تجویز پیرس میں اسرائیل، امریکہ اور مصر کے انٹیلی جنس سربراہوں اور قطر کے وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد سامنے آئی ہیں۔
مذاکرات کی سنگینی کی علامت کے طور پر حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بات چیت کے لیے قاہرہ جا رہے ہیں، جو ایک ماہ سے زائد عرصے میں ان کا پہلا عوامی دورہ ہے۔
تاہم اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ’مکمل فتح‘ تک غزہ سے فوجیوں کو نہ نکالنے کے اپنے عہد کا اعادہ کیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ باقی قیدیوں کو صرف جنگ مستقل طور پر ختم کرنے کے وسیع تر معاہدے کے حصے کے طور پر رہا کرے گا۔
اسرائیل کی غزہ میں جارحیت سے اب تک 26 ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں۔