Saturday, October 19, 2024, 2:48 AM
**جیوری نے ٹرمپ کو تمام 34 جرائم میں قصور وار قرار دے دیا **سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ’ہش منی‘ کیس میں جیوری نے انہیں قصوروار قرار دیا ہے **فیصلے کے بعد صدر ٹرمپ نے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دیا **جج متعصبانہ رویہ رکھتے تھے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے؛ ڈونلڈ ٹرمپ **فرد جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 34 الزامات کا سامنا تھا
بریکنگ نیوز
Home » جبری گمشدگیوں کا کیس : وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت میں پیش

جبری گمشدگیوں کا کیس : وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت میں پیش

کوئی بھی جبری گمشدگیوں کا دفاع یا وکالت نہیں کر سکتا : نگران وزیراعظم

by NWMNewsDesk
0 comment

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ لاپتہ بلوچ طلبہ کی عدم بازیابی سے متعلق کیس میں بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ کوئی بھی جبری گمشدگیوں کا دفاع یا وکالت نہیں کر سکتا اور انہوں نے اس مسئلے کو اپنی حکومت کے دوران حل کرنے کی کوشش کی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے بدھ کو کیس کی سماعت کی، جہاں نگران وزیراعظم کے علاوہ اٹارنی جنرل منصور اعوان اور نگران وزیرداخلہ گوہر اعجاز بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل دیئے اور لاپتہ افراد کی تعداد کے حوالے سے عدالت عالیہ کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے کوششیں کی گئیں، 11 مزید لاپتہ بلوچ طلبہ کو بازیاب کروایا گیا، نو افراد سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں، چار تاحال ٹریس نہیں ہوسکے اور دو افراد افغانستان میں ہیں۔

جس پر عدالت نے لاپتہ افراد کی وکیل ایمان زینب مزاری سے کہا کہ وہ اپنی فہرست سے اس کا موازنہ کریں۔

banner

جس کے بعد عدالت نے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے اس فہرست سے متعلق استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’کوئی بھی ادارہ قانون سے بالاتر نہیں اور عدالت میں پیش ہو کر آپ نے ثابت کیا کہ وزیراعظم بھی قانون کو جوابدہ ہے۔‘

جس پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ وہ آئین کے دائرہ اختیار میں کام کر رہے ہیں اور جب عدالت نے انہیں بلایا تو وہ حاضر ہو گئے۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا: ’ہم مسلح جدوجہد کا سامنا کر رہے ہیں، وہ ایک نئی ریاست تشکیل دینے کے لیے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔‘

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے، جہاں غیر ریاستی عناصر سرگرم ہیں جو خود ان کے بھی پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی جبری گمشیدگیوں کا دفاع یا وکالت نہیں کر سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کی تنظیمیں ریاست پر تو تنقید کا حق رکھتی ہیں لیکن انہیں غیر ریاستی عناصر کی کارروائیوں پر بھی تنقید کرنی چاہیے۔

نگران وزیراعظم نے عدالت میں مزید کہا کہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ ان کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا جسے حل کرنے کے لیے کوشش کی گئی۔

انوار الحق کاکڑ نے عدالت کے روبرو کہا کہ ’یہ معاملہ ختم ہونا چاہیے، آئے روز ریاست پر الزامات کا سلسلہ رکنا چاہیے۔‘

جس پر عدالت عالیہ نے نگران وزیراعظم سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ اس معاملے پر قانون سازی کرسکتے ہیں؟‘ جس پر نگران وزیراعظم نے جواب دیا کہ ’نئی پارلمان کے پاس اختیارات ہوں گے، وہ کرسکتے ہیں۔‘

جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کی وجہ سے بہت سے لاپتہ افراد ٹریس ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جو لوگ سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں ان کے کیسز چلیں گے۔‘

عدالت نے کہا کہ ’فیصلہ دینا کوئی مسئلہ نہیں تھا، اہم بات یہ ہے کہ لوگ واپس آئے۔۔۔ بازیابی کے بعد کوئی کبھی بھی عدالت میں نہیں آیا، ہمیں ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ لاپتہ افراد بازیابی کے بعد عدالت نہیں آتے۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے سی ٹی ڈی کی تحویل میں موجود افراد کے خلاف مقدمات کی تفصیل پٹیشنر کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے متعلق دیگر درخواستوں پر سماعت ملتوی کردی، جس کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

مزید پڑھیے

مضامین

بلاگز

 جملہ حقوق محفوظ ہیں   News World Media. © 2024