پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) کا جلسہ اتوار کے پُرتشدد واقعات کے بعد دھرنے میں تبدیل ہو گیا ہے۔
بی وائے سی کا دھرنا جاری ہے اور دوسرے روز بھی ساحلی شہر گوادر میں صورتِ حال کشیدہ ہے۔
پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر نے پیر کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ راج مچی کی آڑ میں گوادر ضلع میں تعینات سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں 30 سالہ سپاہی شبیر بلوچ ہلاک اور دیگر 16 اہل کار زخمی ہو گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مشتعل ہجوم نے بلا اشتعال فورسز کو نشانہ بنایا ہے۔ جتھوں کی جانب سے پر تشدد کارروائیاں قابلِ قبول نہیں اور ذمے داروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں گے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ شہری کسی پراپیگنڈے کے شکار ہونے کے بجائے پُرامن رہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں۔
ادھر بی وائی سی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ نے پیر کو جاری کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ تین روز کے دوران ان کے ایک ہزار کارکنان کو حراست میں لیا گیا ہے۔ چار دن سے گوادر میں انٹرنیٹ بند ہے جب کہ ایف سی، پولیس اور ڈیتھ اسکواڈ کے اہل کار عام لوگوں پر تشدد کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کا کہنا تھا کہ دھرنے پر دو بار کریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔ ایف سی اور پولیس نے مذاکرات کے بجائے پُرامن دھرنے کے شرکا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس سے قبل بی وائے سی نے ’’بلوچ راجء مچی” (بلوچ قومی اجتماع) کے عنوان سے اتوار کو گوادر میں جلسے پر کریک ڈاؤن اور شرکا پر فائرنگ کے نتیجے میں اپنے دو کارکنوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی تھی۔