کابل کی عبوری انتظامیہ نے کہا کہ اُن کی حکومت نے مغربی ملکوں میں اپنے سفارتخانوں اور اُن افغان قونصلرز سے تعلقات ختم کر دیے ہیں جہاں پر موجود سٹاف سابق حکمرانوں کا ہمدرد ہے۔
سنہ 2021 میں کابل پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک افغان سفارتی مشنز کے سٹاف کو مشکل صورتحال کا سامنا رہا کیونکہ انہوں نے جس حکومت سے وفاداری کا عہد نبھایا تھا وہ امریکی افواج کے انخلا سے ختم ہو گئی۔
تاحال کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا تاہم کابل کی عبوری انتظامیہ نے پڑوسی ملکوں میں اپنے سفارت خانوں میں سفارتی عملہ تعینات کیا ہے۔
منگل کو افغانستان کے خارجہ امور کی وزارت نے کہا ہے کہ وہ اب دنیا بھر میں اُن افغان سفارت خانوں سے جاری کیے گئے ویزوں اور ایسے افراد کے پاسپورٹس کی ’ذمہ داری نہیں لیتے‘ جنہوں نے کابل کی نئی حکومت سے تعلق نہیں رکھا۔
جن سفارت خانوں سے طالبان حکومت نے تعلقات ختم کیے اور اُن کی ’ذمہ داری‘ لینے سے معذرت کی ہے اُن میں لندن اور برلن کے علاوہ بلجیئم، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، فرانس، اٹلی، یونان، پولینڈ، سویڈن، ناروے، کینیڈا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
طالبان انتظامیہ کے بیان کے مطابق ’وزارت خارجہ نے متعدد بار ان سفارتخانوں میں موجود افغان سیاسی و سفارتی مشنز سے کہا کہ وہ کابل سے رابطے میں رہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’بدقسمتی زیادہ تر سفارتی مشنز کی جانب سے اختیار کیے گئے طریقہ کار اور رابطے موجودہ انتظامیہ اور مروجہ اصولوں کے منافی ہیں۔
کابل میں وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ دیگر ملکوں میں رہائش پذیر افغان شہری ان سفارتی مشنز سے رابطے کے بجائے ’امارات اسلامی افغانستان‘ سے رجوع کریں۔ یہ وہ نام ہے جو کابل پر کنٹرول رکھنے والے طالبان اپنی حکومت کو دیتے ہیں۔
پاکستان، چین اور روس ایسے تین ملک ہیں جہاں پر موجود سفارت خانے براہ راست کابل کی طالبان حکومت سے احکامات لیتے ہیں۔
جن سفارت خانوں سے طالبان حکومت سے روابط استوار نہیں کیے اُن کو اپنے سٹاف کو تنخواہوں کی ادائیگی اور عمارت کے بل ادا کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔