بنگلہ دیش نے جماعت اسلامی پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت پابندی عائد کردی ہے۔
اس کا اطلاق اسکے اسٹوڈنٹ ونگ اور دوسرے ایسو سی ایٹ اداروں پر بھی ہوگا۔
حکومت نے جماعت اسلامی کو ایک “عسکریت پسند اور دہشت گرد” تنظیم سے تعبیر کیا۔
جماعت پر یہ پابندی ہفتوں تک جاری رہنے ولے ان پر تشدد مظاہروں کے خلاف پکڑ دھکڑ کی ایک ملک گیر کارروائی کے سلسلے میں عائد کی گئی ہے جن میں 200 سے زیادہ لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کے سیاسی شراکت داروں نے جماعت اسلامی، اس کے اسٹوڈنٹ ونگ اور ساتھی تنظیموں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف طالبعلموں کے حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دی تھی ۔
بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ پابندی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت لگائی گئی ہے۔
15 جولائی سے اب تک ملک بھر میں کم از کم 211 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 10 ہزار سے زیادہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ شفیق الرحمان نے کہا کہ “ہم بنگلہ دیش جماعت اسلامی پر پابندی کے غیر قانونی، غیر مجاز اور غیر آئینی فیصلے کی شدید مذمت اور اس کےخلاف احتجاج کرتے ہیں۔ عوامی لیگ کی زیر قیادت 14 جماعتی اتحاد ایک سیاسی پلیٹ فارم ہے۔ ایک سیاسی جماعت یا اتحاد دوسری سیاسی جماعت کے بارے میں فیصلے نہیں کر سکتا۔ ‘‘
انہوں نے کہا، “بنگلہ دیش کے قوانین اور آئین اس طرح کا اختیار نہیں دیتے۔ اگر کسی ایک پارٹی پر کسی دوسری پارٹی یا اتحاد کی طرف سے پابندی لگانے کا رجحان شروع ہوتا ہے، تو یہ افراتفری اور ریاستی نظام کے خاتمے کا باعث بنے گا۔”