بنگلہ دیش میں وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور حکومت کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں لگ بھگ چار درجن ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔
مل بھر ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے جس میں کل سے آج تک مجموعی طور پر 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک مشتعل ہجوم لاٹھیاں اور ڈنڈے اٹھائے دارالحکومت ڈھاکہ کے مرکزی باغ اسکوائر پر جمع ہوا۔
رپورٹس کے مطابق دیگر بڑے شہروں میں بھی مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ ان مظاہروں میں بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
پولیس انسپکٹر الہلال کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت کے کارکنوں اور احتجاج میں شامل طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
پولیس حکام کا مطابق ڈھاکہ کے منشی گنج ضلع میں دو نوجوان مارے گئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والے دو نوجوانوں میں سے ایک کے سر پر گولی لگی تھی۔
دوسرے نوجوان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بھی فائرنگ کی زد میں آنے سے ہلاک ہوا ہے۔
حکومت نے کئی شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔
انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں دوسری بار تیز رفتار انٹرنیٹ کو بندش کا سامنا ہے۔
اطلاعات کے مطابق صارفین کو میسجنگ سروس واٹس ایپ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک تک رسائی میں بھی دشواری ہے۔
رپورٹس کے مطابق حکومت مخالف احتجاج میں شامل طلبہ نے ملک میں کئی شاہراہوں کو بھی بلاک کر دیا ہے۔
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے طلبہ ’عدم تعاون تحریک‘ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
حکومت نے مظاہرین کو فسادی قرار دیا ہے۔
وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے نیشنل سیکیورٹی پینل کی میٹنگ کے دوران گفتگو میں کہا کہ احتجاج کرنے والے اب طلبہ نہیں ہیں بلکہ یہ دہشت گردی ہیں جو ملک کو عدم استحکام کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔
کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے واقعات بھی ہوئے۔ متعدد تھانوں اور دو ارکانِ اسمبلی کے مکانات بھی نذر آتش کردیے گئے۔
دریں اثنا حکومت نے شام 6 بجے کے بعد کرفیو کے نفاذ اور ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس ایک بار پھر بند کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔