بنگلہ دیش کی خود ساختہ جلاوطن سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے رواں ماہ کے آغاز میں اپنی حکومت کا تختہ الٹنے والے احتجاج کے دوران سینکڑوں طالب علموں کی اموات کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔
اپنے بیٹے سجیب واجد کے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں شیخ حسینہ نے ان ’گھناؤنے قتل اور تخریب کاری کی کارروائیوں‘ کے ذمہ داروں کی شناخت اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
سابق وزیر اعظم خود بھی عبوری حکومت کی جانب سے احتجاج کے دوران پولیس کی گولی سے ایک شخص کی موت کی تحقیقات کا سامنا کر رہی ہیں۔
پانچ اگست کو انڈیا فرار ہونے کے بعد شیخ حسینہ نے پہلی بار اپنے بیان میں کہا کہ ’طلبہ، اساتذہ، پولیس افسران بشمول حاملہ خواتین، صحافی، ثقافتی کارکن، مزدور، رہنما، عوامی لیگ اور اس سے منسلک تنظیموں کے کارکن، پیدل چلنے والے اور مختلف اداروں میں کام دیگر افراد دہشت گردی کی جارحیت کا شکار ہوئے اور اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ میں اپنے دلی دکھ کا اظہار کرتی ہوں اور ان کی روحوں کے سکون کے لیے دعا کرتی ہوں۔‘
شیخ حسینہ نے اپنے اس بیان میں 15 اگست 1975 کو ایک فوجی بغاوت کے دوران اپنے والد شیخ مجیب الرحمان، بنگلہ دیش کے بانی اور خاندان کے دیگر 15 افراد کے قتل کو یاد کیا۔
انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ 15 اگست کو قومی یوم سوگ کے طور پر منائیں حالانکہ عبوری حکومت نے اس روز عام تعطیل کو منسوخ کر دیا ہے۔
شیخ حسینہ نے اپنے بیان میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان کی تذلیل کی گئی جن کی قیادت میں ہم نے ایک آزاد قوم کے طور پر عزت حاصل کی۔