پاکستان کی فوج نے اپنے طاقتور ترین خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران مزید تین سابق افسران کو تحویل میں لینے کا اعلان کیا ہے۔
فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف جاری کورٹ مارشل کی کارروائی کے سلسلے میں تین ریٹائرڈ افسران کو فوج کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق بعض ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف تحقیقات کی جار ہی ہیں۔
اعلامیے کے مطابق ریٹائرڈ افسران کے خلاف ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے سیاسی گٹھ جوڑ کی تحقیقات جاری ہیں۔
آئی ایس پی آر نے بیان میں فوجی افسران کے نام اور رینک کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی تحویل میں لیے گئے ریٹائرڈ افسران میں دو بریگیڈیئر اور ایک کرنل شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چکوال سے تعلق رکھنے والے بریگیڈیئر نعیم اور بریگیڈیئر غفار سمیت کرنل ریٹائرڈ عاصم بھی فوج کی تحویل میں ہیں۔
فیض حمید کے بعد سب سے بڑے آرمی آفیسر بریگیڈیر (ر) غفارفوجی تحویل میں لے لیے گئے۔ بریگیڈیر (ر) غفارر ڈی جی سی جنرل فیض حمید کے ڈپٹی ڈائریکٹر پلانز آئی ایس آئی رہ چکے ہیں۔
اسکے علاوگرفتار کیے گئےبریگیڈیر(ر) نعیم بھی جنرل فیض حمید دور میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر اسلام آباد تعینات رہ چکے ہیں۔
اسی طرح کرنل عاصم بھی جنرل فیض حمید کے دور میں ان کے انڈر کمانڈ رہ چکے ہیں۔ تینوں افسران سے تفتیش جاری ہے اور ان سے ملنے والے شواہد کی روشنی میں کاروائی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے گا۔
اس دوران انکشاف ہوا ہے کہ فوجی تحویل میں لیے جانے والے افسران کا جنرل فیض حمید کہ ساتھ قریبی رابطہ تھا اور ریٹائرمنٹ کہ بعد بھی قائم رہا ہے اور دور ان سروس بھی انکے رابطے گہرے تھے۔
تینوں ریٹائرڈ افسران مبینہ طور پر جنرل فیض حمید کے قریبی ساتھی تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی معاملات میں عمران خان اور جنرل فیض کے درمیان پیغام رسانی کرتے تھے۔