26 اگست کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہو گئی ہے جن میں 14 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
موسیٰ خیل میں مسافروں کو گاڑیوں اور کوئلے کے ٹرکوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔
ضلع موسیٰ خیل کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ایوب اچکزئی نے شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں 23 افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے قومی شاہراہ کو ناکہ لگا کر بند کر دیا۔
اس مقام پر مسلح افراد نے دو درجن سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو نذرِ آتش بھی کیا ہے۔
ہلاک ہونے والوں کا تعلق پنجاب کے ضلعوں وہاڑی اور فیصل آباد سے تھا۔ انکی میتوں کو پنجاب بھیج دیا گیا ہے
یہ حملے بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر کیے گئے ہیں۔
بی ایل اے نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے ‘آپریشن ہیروف’ کا نام دیا ہے۔
بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بی ایل اے کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے لسبیلہ میں فورسز کے کیمپ پر حملہ کیا۔
بلوچستان کے پنجاب سے متصل علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے 23 مسافروں کو بسوں سے اُتار کر شناخت کے بعد قتل کر دیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجماں اسٹیفن دوجارک نے کہا ہےکہ سیکرٹری جنرل بلوچستان میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل نے زور دیا ہے کہ شہریوں کے خلاف حملے ناقابل قبول ہیں۔ وہ لواحقین سے اپنی دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحقیقات کرائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔
یورپی یونین خارجہ امور اور سکیورٹی پالیسی کی ترجمان نبیلہ مسرالی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور تشدد کی کسی بھی صورت میں کہیں جگہ نہیں اور یہ جمہوریت کی بنیادوں کے لیے خطرہ ہیں۔
نبیلہ مسرالی نے کہا کہ ہماری ہمدردی دہشت گرد حملے میں متاثر ہونے والوں کے ساتھ ہے۔