امریکہ کی ایک عدالت نے انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ 2008 میں قتل کے مقدمے میں جھوٹا اعتراف کروانے اور 43 سال بے گناہی کی قید کاٹنے والے مارسل براؤن کو 50 ملین ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرے۔
مارسل براؤن کے ہرجانے کے لیے دائر کیے گئے مقدمے کی 2 ہفتے کی سماعت کے بعد آج ان کے حق میں متفقہ فیصلہ سنایا گیا۔
عدالت نے انتظامیہ کو امریکی تاریخ کا سب سے بڑے ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیدیا۔
مارسل براؤن کو 2008 میں 18 سال کی عمر میں 19 سالہ پیرس جیکسن کے قتل کیس میں شریک مجرم ہونے کے شک پر گرفتار کیا گیا تھا۔
مارسل براؤن کا کیس لڑنے والے لاء فرم لووی اینڈ لووی نے بتایا کہ گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے میرے مؤکل کو ایک کمرے میں 30 گھنٹے تک قید تنہائی میں رکھا۔ نہ انھیں کھانا دیا گیا اور نہ ہی سونے دیا گیا۔
وکیل نے مزید بتایا کہ میرے مؤکل نے پولیس سے بار بار اپنے اہل خانہ سے بات کروانے کی درخواست کی۔ جس پر انھیں صرف ایک بار کال کرنے کی اجازت دی گئی لیکن منصفانہ ٹرائل کے مواقع فراہم نہیں کیے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کو جھوٹا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں طویل قید سے ڈرایا گیا جس پر مارسل براؤن نے اعتراف جرم کرلیا کہ چند برس کی قید کے بعد رہا ہوجاؤں گا جو کم از کم اس تشدد اور قید تنہائی سے بہتر ہے تاہم انھیں 35 سال کی سزا سنائی گئی۔
دس سال قید کے بعد مارسل براؤن نے عدالت میں پولیس کے خلاف مقدمہ دائر کیا جس میں زبردستی کرائی گئی اعتراف جرم کی کہانی بیان کی۔ عدالت نے تمام شواہد کی روشنی میں 2019 کو انھیں بری کردیا۔
مارسل براؤن جو اب 34 سال کے ہوچکے ہیں۔ بعد ازاں اپنی زندگی کے 10 قیمتی سال کے برباد ہونے پر ہرجانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا جس نے آج ان کے حق میں فیصلہ دیا۔