اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے ممکنہ ملٹری ٹرائل پر جمع کرایا گیا بیان مسترد کر دیا ہے
عدالت نے وفاق کو ایک ہفتے میں واضح مؤقف دینے کی ہدایت کردی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے ممکنہ ملٹری حراست و ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔
سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سیاست دانوں اور فوجی افسر کے بیانات کی خبریں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔ اگر بیانات کسی افسر کی طرف سے آئیں تو وہ سنجیدہ ہیں۔
اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عمران خان کو فوج کی حراست میں دینے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزارتِ دفاع کے پاس آج تک ملٹری حراست و ٹرائل کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ وزارتِ دفاع کی طرف سے بیان دے رہا ہوں کہ ایسی کوئی چیز ابھی نہیں ہو رہی۔
انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی درخواست آتی ہے تو پھر بھی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری سے کہا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کی درخواست قبل از وقت ہے؟ آپ کی درخواست پر عدالت نے نوٹس جاری نہیں کیا بلکہ بیان طلب کیا تھا۔ اگر جواب آتا کہ ہاں ملٹری ٹرائل ہونے جا رہا ہے تو پھر بات آگے بڑھتی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرے پاس اس کیس میں آگے بڑھنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
وزارتِ دفاع کے نمائندے بریگیڈیئر فلک ناز بعد ازاں روسٹرم پر آئے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے فیلڈ جنرل کورٹ میں 50 سے زائد کیس کیے ہیں۔
اس پر عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کیسے سویلین افراد کو ملٹری کورٹس میں لے جاتے ہیں؟
وزارتِ دفاع کے نمائندے کا کہنا تھا کہ متعلقہ مجسٹریٹ کو ملٹری اتھارٹی آگاہ کرتی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کا طریقۂ کار کیا ہوتا ہے؟
بریگیڈیئر فلک ناز نے کہا کہ جب کوئی شخص آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا کورٹ مارشل ہوتا ہے۔
اس پر عدالت نے پوچھا کہ کسی شخص کا ملٹری ٹرائل ہو گا یہ طے کرنے کے لیے کیا طریقۂ کار ہوتا ہے؟
وزارتِ دفاع کے نمائندے نے کہا کہ آرمی ایکٹ ایک اسپیشل قانون ہے۔ سیکشن ٹو ون ڈی کے تحت سویلین کا بھی ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے۔
عدالتی بینچ کا کہنا تھا کہ اگر ملٹری ٹرائل سے پہلے عمران خان کو نوٹس دیا جاتا ہے تو پھر یہ کیس نمٹا دیتے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ بغیر نوٹس آسمانی بجلی کی طرح آنا ہے تو پھر ایسا نہیں ہو گا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب کے قانون کو سپریم کورٹ نے ڈریکونین قرار دیا تھا۔ لیکن اس میں بھی طریقۂ کار موجود ہے۔ طریقۂ کار یہ ہے کہ پہلے سول عدالت چارج فریم کرے گی۔ ٹرائل کورٹ اگر کہے کہ کیس ملٹری کورٹ کو بھیجنا ہے تو پھر نوٹس دے کر بھیجا جا سکتا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے ملٹری ٹرائل سے متعلق کوئی واضح جواب نہیں آ رہا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میں آپ کو وقت دیتا ہوں۔ اس سے متعلق ہدایات لے کر آ جائیں۔
عدالت نے حکومت کا واضح مؤقف طلب کر لیا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا یا نہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے واضح بیان دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے وقت مانگا۔
جسٹس میں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ حکومت کا بیان واضح نہیں۔ آئندہ سماعت پر واضح مؤقف پیش کیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کر دی۔