بھارت نے امریکہ کی ایک عدالت میں سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کی سازش کے مقدمے میں اعلیٰ سیکیورٹی حکام کی طلبی کو ’مکمل طور پر غیر ضروری‘ اقدام قرار دیا ہے۔
امریکہ میں نیویارک کی سدرن ڈسٹرک کورٹ نے خالصتان تحریک کے حامی علیحدگی پسند سکھ رہنما گرپتونت سکھ کے قتل کی سازش کے الزام میں دائر ایک مقدمے میں بھارتی حکومت، قومی سلامتی کی مشیر اجیت ڈوول، خفیہ ادارے ’را‘ کے سابق سربراہ سامنت گویل، را کے ایجنٹ وکرم یادو اور بھارتی بزنس مین نکھل گپتا سے 21 روز میں جواب طلب کیا ہے۔
بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے امریکی عدالت کے سمن کے بارے میں سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ سامنے آتے ہی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا تھا اور ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔
سیکریٹری خارجہ نے اس مقدمے میں سمن جاری کرنے کو ’ بلاجواز‘ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا جس شخص کے دائر کیے گئے مقدمے میں عدالت نے جواب طلب کیا ہے وہ خود ایک غیر قانونی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے۔
گرپتونت سنگھ پنوں سکھوں کی علیحدہ ریاست خالصتان بنانے کی حامی تنظیم ’سکھس فور جسٹس‘ کے سربراہ ہیں۔ بھارت نے 2020 میں نفرت انگیزی کے الزامات میں اس تنظیم پر پابندی عائد کردی تھی۔
پنوں امریکہ اور کینیڈا کی دہری شہریت رکھتے ہیں۔
بھارت نے انہیں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مطلوبہ افراد کی فہرست میں بھی شامل کر رکھا ہے۔
گزشہ برس چیک ری پبلکن نے نیویارک میں گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں امریکہ کی درخواست پر بھارتی بزنس مین نکھل گپتا کو حراست میں لیا تھا۔ گپتا کو رواں برس جون میں امریکہ منتقل کیا گیا تھا۔
رواں برس اپریل میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے پنوں کی قتل میں ملوث ہونے سے متعلق اپنی رپورٹ میں بھارتی خفیہ ادارے را کے افسر وکرم یادو اور ایجنسی کے سربراہ سامنت گوئل کا نام بھی لیا تھا۔