اسرائیل کے فوجی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل نداو شوشانی نے صحافیوں کو بتایا کہ جس انٹیلی جنس معلومات کی بنا پر حسن نصراللہ کے خلاف بیروت میں فضائی کارروائی کی گئی، وہ برسوں پُرانی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے انٹیلی جنس کو استعمال کیا جس کے لیے ہم برسوں سے کام کر رہے تھے اور ہمارے پاس معلومات تھیں اور ہم نے یہ حملہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب حزب اللہ کے شمال پر حملہ کرنے کے بعد گذشتہ 11 مہینوں میں ایجاد نہیں ہوا۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ بیروت کے جنوب میں ضاحیہ میں واقع حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر کو ہدف بنا کر ایسے وقت نشانہ بنایا جب وہاں اُن کی لیڈرشپ ملاقات کر رہی تھی۔
ایک فوجی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایف 15 جیٹ طیاروں نے آپریشن کو انجام دینے کے لیے جمعے کو ہیٹزرم ایئربیس سے پرواز کی۔
وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ میں اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حملہ موقع پر کیا گیا کیونکہ اسرائیلی انٹیلی جنس کو میٹنگ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے ہی اس کے بارے میں معلوم ہو گیا تھا۔‘
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ملک سے باہر تھے۔
ان کے دفتر نے بعد میں ایک تصویر جاری کی گئی جس کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ اس حملے کی منظوری دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
سینیئر حکام نے بتایا کہ ’کئی منٹوں کے دوران نصراللہ کو مارنے کے لیے 80 سے زائد بم گرائے گئے۔
لبنان کی وزارت صحت کے مطابق کارروائی کے دوران چھ افراد ہلاک جبکہ 91 زخمی ہوئے۔
اسرائیل کی فوج نے سنیچر کو کہا تھا کہ جمعے کو بیروت پر ایک فضائی حملے میں عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ مارے گئے ہیں۔