افغانستان کے طالبان حکام نے دوحہ میں اقوام متحدہ کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات سے قبل ہفتے کو کہا کہ خواتین کے حقوق سے متعلق مطالبات حل کرنا ’افغانستان کا داخلی معاملہ‘ ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دوحہ مذاکرات سے قبل کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ طالبان حکام ’خواتین سے متعلق مسائل کو تسلیم کرتے ہیں۔‘ تاہم ساتھ ہی کہا کہ یہ ’مسائل افغانستان کے ہیں۔‘
دوحہ میں افغان وفد کی قیادت کرنے والے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا: ’ہم افغانستان کے اندر ان مسائل کے حل کے لیے منطقی راستہ تلاش کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ خدانخواستہ ہمارا ملک دوبارہ تنازعات اور اختلافات کا شکار نہ ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت دوحہ میں شیڈول اجلاسوں میں پورے افغانستان کی نمائندگی کرے گی اور اختیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کی میز پر صرف وہی افغان ہوں گے۔
انہوں نے کہا: ’اگر افغان متعدد چینلز کے ذریعے شرکت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اب بھی بکھرے ہوئے ہیں، ہماری قوم اب بھی متحد نہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے آج پریس کانفرنس میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ طالبان حکومت تمام ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات کی خواہاں ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ دوحہ میں ’کوئی بنیادی یا اہم بات چیت نہیں ہوگی اور اس اجلاس میں مغربی ممالک کے ساتھ محض خیالات کا تبادلہ ہو گا۔‘
دوحہ مذاکرات کے ایجنڈے میں انسداد منشیات اور معاشی مسائل بھی شامل ہی، جو تباہ حال افغان حکام کے لیے اہم موضوعات ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’ہماری معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں، جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔ اگر معیشت ٹھیک ہو گئی تو دیگر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔‘
افغان طالبان اتوار کو قطر میں شروع ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور میں پہلی بار اپنا وفد بھیج رہے ہیں۔