انڈیا کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ طلاق یافتہ مسلمان خاتون اپنے سابق شوہر سے خرچ مانگ سکتی ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ ضابطہ فوجداری کی شق 125 کے تحت مسلمان خاتون طلاق کے بعد شوہر سے نان نفقہ طلب کر سکتی ہے۔
انڈین سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ مسلمان خواتین کے قانون (طلاق پر حقوق کا تحفظ) سنہ 1986 کو ملک کے سیکولر قانون پر فوقیت نہیں
سپریم کورٹ کے جسٹس بی بی ناگراتھنا اور جسٹس آگسٹائن جارج مسیح کے بینچ نے ایک بڑے فیصلے میں ایک مسلمان شہری کی وہ درخواست مسترد کر دی ہے جس میں انہوں نے ضابطہ فوجداری کے تحت اپنی سابقہ اہلیہ کو خرچ ادا کرنے کے حکم کو چیلنج کیا تھا۔
جسٹس ناگراتھنا نے فیصلے میں لکھا کہ ’ہم اس فوجداری نوعیت کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے اس اہم نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سیکشن 125 کا اطلاق تمام خواتین پر ہوگا نہ کہ صرف شادی شدہ خواتین۔‘
جسٹس آگسٹائن نے الگ سے اس کے ساتھ اپنا فیصلہ لکھا ہے۔
انڈین سپریم کورٹ کے بینچ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ قانون کے تحت نان نفقے کا مطالبہ تمام شادی شدہ خواتین کر سکتی ہیں اور اس میں کسی مذہب کے ماننے والے پر کوئی پابندی نہیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ نان نفقہ یا خرچ دینا کوئی عطیہ نہیں بلکہ شادی شدہ خاتون کا حق ہے۔
جسٹس ناگراتھنا نے فیصلے میں کہا کہ ’بعض شوہر اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ اہلیہ گھر بناتی ہے جو جذباتی اور دیگر کئی حوالوں سے اپنے شریک حیات پر
انحصار کرتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ انڈیا کا مرد اہلیہ کے گھر بنانے کے کردار اور قربانی کو تسلیم کرے۔‘